پچھتاوا۔ افسانہ



Story: Pachtawa
Written by Badee ul Jamal
Genre: Social Drama
Font: Urdu

زین ثمرہ خاتون کی نند کا شوہر ہے۔ ثمرہ خاتون کا شوہر سعودیہ میں مقیم ہے۔ شوہر کی غیر موجودگی میں زین ثمرہ خاتون اور ان کے بچوں کا خیال رکھتا ہے۔ ثمرہ خاتون کی بیٹی گڑیا کے امتحان قریب ہیں اور اسے ٹیوشن کی ضرورت ہے۔ زین نے گڑیا کو ٹیوشن پڑھانے کی ذمےداری لی ہے لیکن گڑیا زین سے ٹیوشن پڑھنے کو تیار نہیں۔ ثمرہ خاتون بیٹی کی بات مان کر زین کو ناراض نہیں کر سکتیں۔ گڑیا زین سے ٹیوشن کیوں نہیں پڑھنا چاہتی؟ کیا ثمرہ خاتون گڑیا کو منائیں گی یا زین کو ناراض کر دیں گی؟ کیا ہوگا آگے؟ جاننے کے لئے پڑھئے افسانہ پچھتاوا

پچھتاوا
مختصر افسانہ
( بدیع الجمال)

ہر شام کی طرح زین آج پھر کام سے واپسی پہ سیدھا ان کی طرف آیا تھا۔ ہاتھ میں آئس کریم کا ٹب لئے۔ آتے ہی ٹب دس سالہ شاہد کے حوالے کیا اور خود صوفے پہ آ بیٹھا۔
’ کیسی ہیں آپا؟۔۔۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے؟ ‘
زین کی اپنائیت بھری نرم آواز اور شیریں لہجہ۔ ثمرہ خاتون نے اپنائیت بھری خفگی سے زین کو گھورا۔
’ تم کیوں ہر بار آتے ہوئے کچھ نہ کچھ اٹھا لاتے ہو۔ بچوں کو بری عادت پڑتی ہے اس طرح۔ ‘
ثمرہ خاتون نے کہا ۔ زین ان کی خفگی کو کسی خاطر میں نہ لایا۔
’ نہیں بری عادت پڑتی آپا۔ اور میں کون سا کوئی غیر ہوں۔ میرے اپنے بچے ہی تو ہیں یہ۔ ‘
زین کی وہی پرخلوص محبت اور اپنائیت۔ 
’ اسلام علیکم انکل! ‘  چودہ برس کی علیشاہ نے آ کر سلام کیا اور سر زین کے سامنے جھکا دیا۔ زین اسے دیکھ کر کھِل اٹھا۔
’ وعلیکم سلام! آ گئی ہماری گڑیا۔۔۔ آؤ ادھر میرے پاس بیٹھو۔ ‘
زین نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھنے کی بجائے اسکا ہاتھ کھینچ کر برابر میں بٹھا لیا۔ اس کی پیٹھ پہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
’ آپا! قسم سے کیا کمال کی بچی ہے یہ۔۔۔ سارے خاندان میں اس کی مثال نہیں۔ میں فخر کے ساتھ اس کے قصے لوگوں کو بتاتا ہوں اور گھر میں بھی اس کی مثالیں دے کر نادیہ اور اس کی ماں کو شرم دلاتا رہتا ہوں۔ نادیہ پڑھائی کو لے کر سیریس ہوتی ہے اور نہ اس کی ماں کو بچوں کی تعلیم و تربیت کی کوئی فکر ہے۔ جیسی خود لاپرواہ ہے ویسا ہی بچوں کو بھی کر رکھا ہے۔ ‘
زین علیشاہ عرف گڑیا پہ فخر کر رہا تھا اور اپنی بیوی اور بچوں سے شاکی تھا۔ ایسا بول کر تو زین نے ثمرہ خاتون کا دل خوش کر دیا۔
’ اُسے اور اس کی بہنوں کو فون پہ غیبتین، چغلیاں اور تہتمیں لگانے سے فرصت مِلے تب نا۔۔۔ چوبیس گھنٹے ان کا یہی مشغلہ ہے۔ بس ایک دوسرے کو کالیں کرکے لگی رہتی ہیں کسی نہ کسی کی بدخوئی میں۔ اپنے بچوں پہ توجہ دیتیں نہیں اور سب کی نظریں میرے بچوں پہ لگی ہیں کہ کہیں کوئی بات مِلے تو بتنگڑ بنائیں۔ شاید اسی سے ان کے جلتے دِل کو کچھ تسکین پہنچے۔ ‘
ثمرہ خاتون نے بے دھڑک ہو کر دِل میں جو آیا کہہ دیا۔ زین کوئی غیر تھوڑا تھا۔ ان کو آپا کہتا تھا اور جس طرح اسلم کے سعودیہ سدھارنے کے بعد زین ان کا سہارا بنا تھا۔ اتنا خیال اور اتنی ذمےداری کا مظاہرہ تو سگا بھائی بھی نہیں کرتا۔ ان کی پوری سسرال میں جہاں سب ہی ان سے اور ان کے بچوں سے خار کھائے بیٹھے تھے۔ خاص طور سے اسلم جب سے سعودیہ گئے تھے تب سے ان کی ترقی دیکھ کر تو اور بھی ان کے سینوں پہ سانپ لوٹ رہے تھے۔ وہ تو چلو پھر بہو اور بھابھی تھیں۔ وہ لوگ تو ان کے بچوں سے بھی ایسے جلتے تھے جیسے وہ بچے ان کے اپنے بیٹے اور بھائی کی اولاد نہیں بلکہ ثمرہ خاتون میکے سے جہیز میں ساتھ لائی ہوں۔ ان کا جلنا جائز بھی تھا۔ ان کے بچوں جیسا کوئی خوبصورت بھی پورے خاندان میں نہ تھا اور ان کے جیسا ذہین بھی کوئی نہ تھا۔ ان کے دو بچے تھے۔ بڑی بیٹی علیشاہ عرف گڑیا۔ جو کہ میٹرک میں تھی۔ اونچا اور نازک سراپہ ، سفید رنگت اور باریک نین نقش۔ وہ سچ مچ میں موم کی گڑیا تھی۔ پڑھنے لکھنے میں ہوشیار اور شوق بھی اسے بہت تھا۔ کہتی تھی کہ میں پڑھ لکھ کر ناسا (NASA) میں جاؤں گی۔ اور چھوٹا بیٹا شاہد تھا جو دس سال کا اور چھٹی جماعت میں تھا۔ خاندان میں کسی کے بچے بھی ان کے بچوں سے حسین اور ذہین نہ تھے۔ ایسے میں ان کا جلنا کڑھنا تو بنتا تھا۔ زین ثمرہ خاتون کی منجھلی نند کا شوہر تھا۔ سسرال والوں سے دوری رکھنے کے باعث پہلے کبھی انھیں زین کو جاننے یا سمجھنے کا موقع نہیں مِلا تھا۔ لیکن اسلم کے سعودیہ جانے کے بعد زین نے جس طرح ثمرہ بیگم اور ان کے بچوں کو سہارا دیا۔ وہ قابلِ تحسین تھا۔ ہر روز صبح و شام کام پہ جاتے ہوئے
 اور کام سے واپسی پہ پہلے ان کے گھر حاضری دیتا تھا۔ پوچھتا تھا کہ کوئی کام یا ضرورت ہے تو بتاؤ۔ ویک اینڈز پہ تو ان کے گھر آ کر ان انکے اور ان کے بچوں کے ساتھ بیٹھتا بھی تھا۔ گھمانے پھرانے بھی لے جاتا تھا۔ اور صرف یہی نہیں۔ اکثر ان کے کام کر دیتا تھا جیسے بجلی، کیبل کا بل دینا، بازار سے کوئی چیز لا دینا، اور بھی چھوٹے موٹے کام وہ جیب سے پیسہ دے کر کرتا تھا اور ہر بار آتے ہوئے پھل، آئس کریم ، سموسے وغیرہ بھی لاتا تھا۔ ثمرہ بیگم کو ایک مرد کا سہارا بھی مِل گیا تھا اور پیسے کی بھی اچھی خاصی بچت ہو رہی تھی۔ اوپر سے زین مخلص اتنا کہ سچ مچ میں سگا بھائی بنا ہوا تھا ثمرہ خاتون کا ۔ انھیں آپا آپا کہتے اس کی زبان تھکتی نہ تھی۔ انھیں بہت احترام اور درجہ دیتا تھا۔ حالانکہ عمر میں ثمرہ خاتون سے سال بھر بڑا ہی تھا۔ لیکن مجال ہے جو ثمرہ خاتون  کے ادب و احترام میں ذرا بھی کمی لاتا ہو۔ وہ ثمرہ خاتون اور ان کے بچوں کا اتنا خیال رکھ رہا ہے۔ یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی۔ زین کی بیوی اور بچوں کو بھی نہیں اور اسلم کو بھی نہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی پتا چل جاتا تو خاندان میں اچھا خاصا ’ رولا ‘ بنتا۔ کیا کیا تہمتیں نہ لگتیں۔ لیکن زین اور ثمرہ خاتون کے دِل صاف تھے۔ زین صرف خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت ثمرہ خاتون اور ان کے بچوں کا خیال رکھ رہا تھا۔ پھر کیوں کسی کو بتا کر بدنامی مول لی جاتی اور ثمرہ خاتون کو جو اچھا بھلا سہارا مِلا ہوا تھا اس سے محروم ہو جاتیں؟
’ بس آپا! الله ان کو پوچھے۔ آپ اپنا بتایئے۔ سب اچھا ہے نا! ۔۔۔ کہیں کوئی پریشانی تو نہیں؟ ‘
ثمرہ خاتون کے تبصرے کے جواب میں زین نے کہا اور پوچھا۔
’ تمہارے ہوتے ہوئے مجھے بھلا کیا پریشانی ہے؟ الله تمہیں خوش رکھے۔ تمہارے جیسے شریف النفس اور مخلص انسان بھلا کہاں ملتے ہیں آج کل۔ ‘
’ ہائے آپا! ۔۔ آپ تو مجھے شرمندہ کرر ہی ہیں۔ ‘  زین نے کہا۔
’ گڑیا! جاؤ ماموں کے لئے چائے بنا کر لاؤ۔ ‘
ثمرہ خاتون کو آدابِ میزبانی نبھانے کا خیال آیا تو گڑیا سے کہا جو ابھی تک زین کے پہلو میں بیٹھی تھی اور زین کا اپنائیت بھرا ہاتھ اسکے کندھے پہ تھا۔ ثمرہ خاتون مان سے زین کو اپنے بچوں کا ماموں بلاتی تھیں۔ گڑیا ماں کا حکم ملتے ہی اُٹھ گئی۔ زین نے اسے جاتے دیکھا۔ پھر ثمرہ خاتون کی طرف اپنی توجہ کر لی۔
’ پھر بھی آپا! اگر کوئی کام ہے تو بتایئے۔ آپ کا یہ بھائی ہمیشہ آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے۔ بلا ججھک کہیے جو بھی کام ہو۔ ‘
زین کا مان دلاتا لہجہ۔ ثمرہ خاتون ہمیشہ کی طرح نہال ہو گئیں۔
’ الله تمہیں خوش رکھے میرا ویر!۔۔۔ کوئی کام نہیں ہے۔۔ البتہ۔۔ ‘
انھیں کام یاد آ ہی گیا۔
’ ہاں بولیے نا آپا۔ ‘  زین حکم سر آنکھوں پہ رکھنے کے لئے بےتاب تھا۔
’ گڑیا کے پیپر ہونے والے ہیں۔ تمہیں تو پتا ہے کہ اسے پڑھائی کا کتنا شوق ہے۔ کہتی ہے کہ ریاضی میں سو فیصد نمبر لانے ہیں۔ اور چاہتی ہے کہ کوئی ٹیوٹر مِل جائے جو اسکی تیاری کروا دے۔ ویسے تو پڑھائی میں بہت تیز ہے۔ جیسا کہ تم جانتے ہو۔ لیکن کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔ ۔۔۔ تو اگر تمہیں کسی ٹیوٹر کا پتا ہو۔ جو پڑھاتا اچھا ہو اور فیس بھی زیادہ نہ لیتا ہو؟۔۔۔ ‘
ثمرہ خاتون نے کام بتا ہی دیا۔ دِل میں کہیں نہ کہیں یہ لالچ بھی تھا کہ زین ٹیوٹر لگوا کر دے گا تو شاید اس کی فیس بھی خود ہی دے دے۔ ان کا پیسہ بچ جائے گا اور کام بھی ہو جائے گا۔ اور کیا چاہیئے؟ 
’ لیں، یہ بھی کوئی کام ہے۔ ‘ زین نے ایسے کہا جیسے یہ کوئی بات ہی نہ ہو۔ پھر اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے ثمرہ خاتون کے سامنے بچھتے ہوئے بولا۔
’ کسی غیر پہ بھروسہ کیوں کرتی ہیں؟ میں پڑھاؤں گا اپنی گڑیا کو ٹیوشن۔ ‘
ثمرہ خاتون کو حیرت ہوئی۔ ’ تم پڑھا لو گے؟ ‘
’ آپا!۔۔۔ کیا مجھے نالائق سمجھ رکھا ہے آپ نے؟ میٹرک کا میتھ مجھے نہیں آتا؟ ‘
زین تو جیسے برا مان گیا۔ اس برا ماننے میں بھی ایک مان تھا۔
’ نہیں، نہیں، میرا وہ مطلب تھوڑی تھا۔ میں تو اسلئے کہہ رہی تھی کہ تم کام پہ جاتے ہو۔ تھک جاتے ہو گے۔ تمہارے لئے کہاں آسان ہو گا روز شام کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ یہاں بیٹھ کر ٹیوشن پڑھانا۔ ‘
’ آسان کیوں نہ ہوگا۔ گڑیا بیٹی ہے میری۔۔۔ میری بہن کی بچی ہے۔ اس کے لئے میں دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ بھی نہیں نکال سکتا بھلا؟ ‘
زین نے کہا تو ثمرہ خاتون مان سی گئیں۔ اپنا بھرم رکھنے کے لئے بولیں۔
’ اچھا پھر ٹھیک ہے۔ تم ہی پڑھا دیا کرنا۔ بتاؤ فیس کیا لو گے؟ ‘
’ لیں آپا! پھر سے کر دی نا غیروں والی بات۔ ‘ زین پھر سے خفا ہوا۔ بولا۔ ’ اب اپنی بچی کو پڑھانے کی میں فیس لوں گا؟ میری نادیہ اور گڑیا ہم عمر ہیں۔ اور مجھے ان دونوں میں کوئی فرق ہی نظر نہیں آتا۔ وہ تو اپنی ماں کی طرح لاپرواہ ہے۔ کوئی پڑھائی لکھائی کی طرف دھیان ہی نہیں۔ گڑیا اگر پڑھنا چاہتی ہے تو اس سے بڑھ کر خوشی مجھے کس بات کی ہوگی؟ بس کر دیں آپا! میں گڑیا کو پڑھانے کی کوئی فیس نہیں لوں گا۔ پھر سے ایسی بات کر کے میرا دِل نہ دکھایئے گا۔ ‘
زین نے حتمی سے لہجے میں کہہ کر ثمرہ خاتون کو کچھ بولنے کے لائق نہ چھوڑا۔ اتنے میں گڑیا بھی چائے لے کر آگئی تو زین چائے لے کر پینے لگا۔

❊   ❊   ❊   ❊   ❊   ❊

زین نے روز شام کو آ کر گڑیا کو پڑھانا شروع کر دیا۔ پہلے دو دِن ثمرہ خاتون زین کو چائے دینے گڑیا کے کمرے میں گئیں۔ لیکن زین نے انھیں چائے دینے سے سختی سے منع کر دیا۔ ایک تو اس سے اسے محسوس ہوتا تھا جیسے واقعی میں وہ مزدوری پہ آیا ہو۔ دوسرا ثمرہ خاتون چائے دینے اور برتن اٹھانے آتی تھیں تو اس سے گڑیا کے انہماک میں خلل آتا تھا۔ تو بہتر یہی تھا کہ انھیں تنہا چھوڑ دیا جائے تاکہ گڑیا ارتکاز کے ساتھ پڑھائی کر سکے۔ تین چار دن گزرے۔ ثمرہ خاتون نے گڑیا سے پوچھا۔
’ زین کیسا پڑھاتا ہے؟ ‘
’ بہت اچھا امی! میتھ کے ساتھ وہ مجھے فزکس کے پرابلمز بھی سالوّ کروا دیتے ہیں۔ ‘
گڑیا نے بہت خوشی سے ایک نہایت تسلی بخش جواب دیا تھا۔ مگر اور دو دن کیا گزرے۔ گڑیا کچھ الجھی الجھی سے دکھائی دینے لگی۔ ثمرہ خاتون نے نوٹ کیا۔ مگر زیادہ اہمیت نہ دی۔ پھر ایک دن گڑیا ماں کے سر پہ آ کھڑی ہوئی۔
’ امی! زین انکل کو منع کر دیں۔ میں آئندہ ان سے ٹیوشن نہیں پڑھوں گی۔ ‘
ثمرہ خاتون کے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔  ’ کیا، کیا ، کیا؟۔۔۔ زین کو منع کر دوں؟ کیوں ؟ ‘
شدید حیرت کے ساتھ استفسار کیا۔  ان کے سوال کے جواب میں گڑیا نظریں جھکائے خاصی الجھی ہوئی کھڑی رہی۔
’ بس، مجھے ان کی سمجھ نہیں آتی۔ ان سے کہہ دیں کہ آئندہ نہ آئیں۔ میں کسی اور سے پڑھ لوں گی۔ ‘
اس کا کہنا تھا کہ ثمرہ خاتون بیٹی کی شامت لے آئیں۔ اسے بے دریغ سنا ڈالیں۔ گڑیا لاکھ اچھی، خوبصورت اور ذہین سہی۔ لیکن اس کی یہ ایک بہت بری عادت تھی جو ثمرہ خاتون کو بہت کھلتی تھی۔ ایسے ہی بیٹھے بٹھائے بِلا وجہ اس کا کسی چیز سے دل اچاٹ ہو جاتا تھا اور پھر کسی طور نہ مانتی تھی۔ اب بھی یہی کیا تھا اس نے۔ کل تک زین بہت اچھا پڑھا رہا تھا۔ اور اب اچانک سے کہہ رہی تھی کہ اس کی سمجھ نہیں آتی اس سے پڑھنا ہی نہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی بات تھی؟ زین جیسا مخلص اور بےلوث انسان۔ بنا کسی غرض کے ان کے لئے اتنا کچھ کر رہا تھا۔ کیا اس سے کہا جا سکتا تھا کہ آئندہ میری بچی کو پڑھانے نہ آنا؟۔ اس کو منع کر کے کسی اور کے پاس بھیجا جا سکتا تھا گڑیا کو پڑھائی کے لئے؟۔۔۔ کیا سوچتا زین؟ کیا عزت رہ جاتی اس کی؟  اسلم کے جانے کے بعد زین ان کا واحد سہارا تھا۔ کیسے اس کو ناراض کر دیتیں؟۔۔ اور آج کل کی مہنگائی میں میٹرک کے میتھ کے لئے ٹویٹر لگوانا اتنا آسان اور سستا تھا؟ وہ بھی ان آخری دنوں میں جب امتحان سر پہ تھے؟  یوں بیٹھے بٹھائے ان کی بیٹی کو کیا سوجھی تھی؟ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں اور سمجھنا چاہتی بھی نہیں تھیں۔ آج تک تو اس کی اس عادت پہ انھوں نے اسکی ضدیں مانی تھیں۔ لیکن یہ ناممکن تھا۔ زین تو ان کی زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہو چکا تھا۔ اسکو کیسے ناراض کرتیں ؟ اور کیوں؟
ثمرہ خاتون نے سمجھانے کی لاکھ کوشش کی۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ بس ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ ’ میں ان اس نہیں پڑھوں گی۔ان کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ ‘ ایک بہت لمبی چوڑی بحث اور بہت سے کوسنوں کے بعد ثمرہ خاتون نے آخر بحث سمیٹنے کی ٹھانی۔
’ اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ آنے دو اسے آج۔۔۔ میں خود تمہارے ساتھ بیٹھ کر دیکھوں گی کہ وہ کیسا پڑھاتا ہے۔ اگر واقعی میں اچھا نہیں پڑھاتا تو میں اس سے کہہ دوں گی۔ ‘
فیصلہ سنانے کے ساتھ ہی ثمرہ خاتون نے منہ دوسری جانب موڑ لیا۔ گڑیا اب بھی خوش تو نہ تھی لیکن اس کے پاس بحث کرنے کو کوئی جواز نہ بچا تھا۔ سو وہ خاموشی سے وہاں سے چل دی۔

❊   ❊   ❊   ❊   ❊   ❊

حسبِ معمول شام کو زین آیا۔ ٹی۔وی لاؤنج میں ڈرامہ دیکھتی ثمرہ خاتون کو سلام جھاڑا۔ گڑیا بھی وہیں اپنی ماں کے برابر بیٹھی تھی۔ زین کو دیکھ کر اس کے چہرے پہ ناگواری اتر آئی۔ 
’ چلو گڑیا بیٹے! ۔۔۔ جلدی سے پڑھ لو۔ پھر مجھے جانا بھی ہے۔ ‘ 
زین نے اس کے چہرے کی ناگواری دیکھی نہ تھی یا دیکھ کر بھی نظر انداز کر دی۔ زین کے کہنے پہ ثمرہ خاتون اُٹھ کھڑی ہوئیں تو گڑیا بھی ان کے ساتھ اُٹھی۔ دونوں ایک ساتھ چلتی گڑیا کے کمرے میں آئیں۔ زین ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ ثمرہ خاتون کے کمرے میں آنے کو اس نے زیادہ اہمیت نہ دی۔ یہی سوچا کہ ثمرہ خاتون شاید کسی کام سے کمرے میں جا رہی ہیں اور اپنا کام کر کے باہر آ جائیں گی۔ ثمرہ خاتون بیڈ پہ پالتی مار کر بیٹھ گئیں۔ گڑیا بھی اپنی کتابیں اور کاپی لے کر بیڈ پہ آ بیٹھی اور زین نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے ایک نظر ان کے درمیان ہڈی بن کر بیٹھی ثمرہ خاتون کو دیکھا۔ ایک گہری نظر پزل سی ہوئی بیٹھی گڑیا پہ ڈالی۔ دوسری گہری نظر سادہ اور شفاف چہرہ لئے بیٹھی ثمرہ خاتون پہ۔
’ آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟ ‘
زین نے گہری نظروں سے انھیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ لہجہ کچھ کمزور سا تھا۔ ثمرہ خاتون اس کے لہجے کی کمزوری محسوس کر کے خود چور سی ہوگئیں۔
( ہائے۔ اس نے بھانپ لیا کہ میں اس کو چیک کرنے کے لئے بیٹھی ہوں۔ )
’ کچھ نہیں۔ بس گڑیا کے امتحان کی تیاری دیکھنے کے لئے بیٹھی ہوں۔ میٹرک کے امتحان ہیں۔ بہت پریشر ہوتا ہے۔ بچے پر بھی اور والدین پر بھی۔ ‘
انھوں نے کمزور سے لہجے میں وضاحت دی۔ یکایک زین کے تیور میں اعتماد اور سختی آ گئی۔
’ آپ خوامخواہ پریشان نہ ہوں۔ ایسی باتیں کر کے آپ بچی کو بھی پریشان کر رہی ہیں۔ جائیں باہر بیٹھئے۔ ورنہ گڑیا کانسنٹریٹ نہیں کر پائے گی۔ ‘
پہلی بار ثمرہ خاتون کو زین کا لہجہ کچھ سخت اور توہین آمیز سا لگا۔ لیکن انھوں نے برا نہ مانا۔ غلطی تو ان کی تھی جو بیوقوف اور جاہل عورتوں کی طرح بےمقصد وہاں آ بیٹھی تھیں۔ وہ شرمندہ سی ہو گئیں لیکن اٹھتے ہوئے گڑیا کا بھی خیال آ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھ جاتیں۔ گڑیا نے فٹ سے انکا ہاتھ پکڑ لیا۔
’ نہیں امی! آپ کہیں نہیں جائیں گی۔۔۔ آپ یہیں بیٹھیے۔ ‘
گڑیا کے لہجے میں ایسی التجاء تھی جیسے ثمرہ خاتون اسے اپنے پیارے بھائی زین کے پاس نہیں بلکہ کسی قصائی کے پاس چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ زین نے اب پھر تھوڑا گڑبڑا کر گڑیا کو گہری نظروں سے دیکھا اور ویسی ہی گہری نظر ثمرہ خاتون کے چہرے پہ ڈالی۔ جواب میں ثمرہ خاتون نے لاچار سی صورت بنائی۔ اس اولاد نے تو انھیں ذلیل کر کے رکھ دیا تھا۔
’ گڑیا!۔۔ تمہاری امی کا یہاں کوئی نہیں ہے۔ تم ان کی موجودگی میں پڑھائی پہ دھیان نہیں دے پاؤ گی۔ ‘  ثمرہ خاتون کی بےچاری صورت سے مطمعن ہو کر زین نے حلاوت کے ساتھ گڑیا کو چمکارا۔ 
’ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ امی آپ نہ جائیں۔ ‘
گڑیا روہانسی ہو گئی۔ ثمرہ خاتون کا ہاتھ اس نے دونوں ہاتھوں میں جکڑ لیا تھا۔ 
’ اچھا چلیے بیٹھ جایئے۔۔۔ ‘
زین کے چہرے پہ ناگواری واضح تھی۔ بیٹی کی ضد پہ ڈھیٹ بن کر ثمرہ خاتون کو وہاں بیٹھنا پڑا تھا۔ اس روز زین نے ایک، ڈیڑھ گھنٹہ پڑھانے کی بجائے صرف پینتالیس منٹ پڑھایا اور 
’ باقی کل پڑھتے ہیں۔ ‘ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ 
’ اتنے جلدی؟ ‘ 
ثمرہ خاتون حیران ہوئیں۔
’ ہاں آپا! ۔۔۔ مجھے کہیں اور بھی جانا ہے۔ اس لئے جلدی ہے۔ ‘ 
زین نے تاویل بیان کی اور چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ثمرہ خاتون نے بیٹی کو گھورا۔ جس نے انھیں زین کے سامنے ذلیل کر کے رکھ دیا تھا۔ اور یقیناً زین کو بھی یہ خاصا برا اور توہین آمیز لگا تھا۔ اسی لئے بہانہ کر کے جلدی چلا گیا۔ صرف اور صرف گڑیا کی اس بری عادت کی وجہ سے پہلی بار ان کے زین سے تعلقات میں دراڑ آئی تھی۔ زین گو کہ تھوڑی دیر بیٹھا تھا۔ لیکن اس نے جتنا بھی پڑھایا تھا بہت اچھے طریقے سے پڑھایا تھا۔  ثمرہ خاتون کو میٹرک کئے سالوں بیت چکے تھے۔ انھیں تو نسبت، مساوات، اوسط وغیرہ کی تعریف تک بھول چکی تھی۔ لیکن زین نے آج جتنی خوبصورتی سے الجبرا کے چند سوال گڑیا کو سمجھائے تھے۔ اس کے بعد گڑیا تو کیا، ثمرہ خاتون خود بھی وہ سوالات حل کر سکتی تھیں۔ انھیں اپنی بیٹی پہ جتنا غصہ آتا کم تھا۔ لیکن وہ کچھ نہ بولیں۔ گڑیا بھی خاموش تھی۔ اب وہ کوئی اعتراض کرتی تو کیسے کرتی۔ جو بہانہ کر کے وہ زین سے پڑھنے سے منع کر رہی تھی۔ اس کی حقیقت انھوں نے خود دیکھ لی تھی۔ اگلا سارا دن گڑیا الجھی ہوئی اور خاصی بےچین سی رہی۔ ایک دم سے اسے چپی لگ گئی تھی۔ سارا دن اس نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر گزارا۔ انھوں نے زیادہ تجسس نہ کیا۔ امتحان سر پہ تھے۔ گڑیا شاید پریشر لے رہی تھی۔ لیکن شام کو جب زین آیا تو ٹی۔ وی لاؤنج میں بیٹھی ثمرہ خاتون کا ہاتھ پکڑ کر گڑیا کھینچنے لگی۔
’ چلئے امی! آپ بھی چل کر بیٹھئے۔ چلیں۔ ‘ وہ ضد کر رہی تھی۔
’ ارے بھئی ہٹو پرے!۔۔۔ خوامخواہ ناٹک مت کیا کرو۔ بچی نہیں رہی اب تم۔ ‘
ثمرہ خاتون نے کوفت سے ہاتھ چھڑوایا۔ اب زین آیا تھا تو گڑیا پھر سے اس کے سامنے انھیں ذلیل کرنے لگ گئی تھی۔ انھیں بےطرح شرم آئی۔ زین نے گہری نظروں سے گڑیا اور ثمرہ خاتون کو دیکھا تھا۔ 
’ چلئے ناں ! امی! آپ بھی ساتھ چلئے ناں۔ ‘
گڑیا ضد کر رہی تھی اور ثمرہ خاتون اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی توجہ ٹی۔ وی پہ مرکوز کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ زین یہ صورتحال دیکھ کر آگے بڑھا اور گڑیا کے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا۔ ثمرہ خاتون نے اپنا ہاتھ تھامے بیٹی کے ہاتھوں کو ایک دم سے ٹھنڈا ہوتا محسوس کیا۔ اس بار بھی انھوں نے اس پہ کوئی توجہ نہیں دی اور نظریں ٹی۔وی کی سکرین سے نہ ہٹائیں۔
’ گڑیا میری بیٹی! ۔۔۔ کیوں اپنی امی کو پریشان کرتی ہو؟ ۔۔۔ چلو آؤ شاباش۔ ‘
کیسی پدرانہ شفقت تھی زین کی آواز میں۔ اور ایسا اثر تھا اس کی آواز اور گڑیا کے کندھے پہ پڑے اس کے ہاتھ کے دباؤ میں کہ گڑیا کی ساری مزاحمت دم توڑ گئی۔ بنا کسی آواز و اعتراض کے گڑیا زین کے زیرِ اثر اس کے ساتھ کھنچی چلی گئی۔ زین اسے پکڑ کر کمرے میں لے گیا۔ ٹی۔ وی پہ نظریں جمائے بیٹھی ثمرہ خاتون نے شکر کی سانس لی کہ بلا سر سے ٹلی۔ اگر زین آگے بڑھ کر گڑیا کو قابو نہ کرتا تو ایک اور بڑا تماشہ ہونا تھا۔ ان کے دِل سے زین کے لئے دعائیں نکل رہی تھیں۔ کیسا نیک اور بیبا آدمی تھا۔ ایک بار بھی انھوں نے زین کے ساتھ کمرے میں جاتی گڑیا کی طرف نہ دیکھا تھا۔ اگر ایک نظر دیکھ لیتیں تو معلوم پڑ جاتا کہ ان کی بیٹی کن نظروں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔ لیکن شاید۔۔ اگر وہ دیکھ بھی لیتیں تو بھی وہ اس کی نظروں کو اہمیت نہ دیتیں۔

❊   ❊   ❊   ❊   ❊   ❊

اس شام زین گڑیا کو پڑھا کر چلا گیا۔ اگلا سارا دن گڑیا خاموش اور پریشان تو رہی ، ساتھ ہی چڑچڑی بھی ہو گئی۔ دوپہر کے کھانے کے لئے شاہد اسے بلانے کمرے میں کیا گیا۔ اس نے شاہد پہ چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ حلق پھاڑ پھاڑ کر اسے کمرے سے نکل جانے کو کہا۔ ثمرہ خاتون نے یہ دیکھا تو خود اس کے کمرے میں چلی آئیں۔ شاہد کو کمرے سے بھیج کر اس سے بولیں۔
’ میں سمجھ رہی ہوں کہ تمہیں اصل میں تکلیف کیا ہے۔ لیکن میری بات کان کھول کر سن لو۔ تمہاری اس بےجا ضد کی وجہ سے میں زین کو ناراض نہیں کروں گی۔ غضب خدا کا۔ بھلائی کا کوئی زمانہ ہی نہیں ہے۔ وہ بےچارہ اتنا مخلص اور بے لوث۔ کیسے ہمارے چھوٹے موٹے ہر کام کرتا ہے۔ اس سے ہمیں کتنا آسرا اور بچت مِل جاتی ہے معلوم ہے؟ اس کی مہربانی سے ہمیں رکشوں اور ٹیکسیوں کے پیچھے بھاگنا نہیں پڑتا۔ بار بار مجھے بازار کے چکر نہیں کاٹنے پڑتے۔ ورنہ شاہد کو دودھ اور سبزی لانے بھی بھیجوں تو کتنا منہ بناتا اور باتیں سناتا ہے معلوم ہے نا۔۔۔۔ اور وہ جو ہمارے اتنے بِل پلے سے ادا کر دیتا ہے وہ الگ۔ صرف اپنی ٹیوشن کا ہی لے لو۔ آج کل ٹیوٹشن کتنی مہنگی ہے معلوم ہے؟۔ تمہارا ابا بھیجتا ہی کتنے پیسے ہے؟ گنتی کے کچھ ہزار بھیجتا ہے۔ اس سے میں گیس بجلی کے بِل پورے کروں؟ گھر چلاؤں؟ تم لوگوں کے پڑھائی کے خرچے اور فیسیں پوری کروں یا تمہاری
 ٹیوشن کی چٹیّاں بھروں؟ اگر اس کو ناراض کردوں تو کیسے پورے کروں اتنے خرچے؟ کون ہماری مدد کو آئے گا؟ الله سے ڈر لڑکی اور ناشکری نہ کر۔ ابھی تجھے دنیا کی خبر نہیں ہے۔ جب ذمے داریاں سر پہ پڑیں گی نا۔۔ تب معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں رہنا اور جینے کا سامان کرنا کتنا مشکل ہے۔ تمہاری اس ناشکری کے چلتے میں زین کو ناراض نہیں کروں گی۔ تم نے اگر پڑھنا ہے تو پڑھو۔ نہیں پڑھنا تو بھاڑ میں جاؤ۔ اپنا نقصان کرو گی میری بلا سے۔ لیکن زین تمہیں ٹیوشن پڑھانا نہیں چھوڑے گا۔ یہ بات تم اچھے سے اپنے ذہںن میں بٹھا لو۔ ‘
ثمرہ خاتون حتمی لہجے میں گڑیا کو اپنا فیصلہ سنا کر کمرے سے نکلنے کے لئے مڑیں تو گڑیا نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر روک لیا۔
’ امی مجھے ان سے نہیں پڑھنا۔ ‘
وہ روتے ہوئے گڑگڑائی۔
’ ہنہ ‘  ثمرہ خاتون نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور کمرے سے نکل گئیں۔

❊   ❊   ❊   ❊   ❊   ❊

ثمرہ خاتون نے گڑیا کو اچھے سے باور کروا دیا تھا کہ وہ گڑیا کی اس بےجا ضد کو کسی خاطر میں نہیں لانے والیں۔ گڑیا نے بھی یہ بات سمجھ لی تھی شاید۔ اس نے یہ مطالبہ تو چھوڑ دیا تھا لیکن وہ بہت خاموش ہو گئی تھی۔ بہت الجھی ہوئی اور چڑچڑی سی بھی رہتی تھی۔ اپنے بھائی اور ماں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھی۔ زیادہ تر اپنے کمرے میں بند رہتی تھی۔ اور زین ایسا جادوگر تھا کہ اس کے سامنے وہ کچھ بول نہیں پاتی تھی۔ یہ بھی الله کا شکر تھا۔ ورنہ جیسی بدتمیزی وہ اپنی ماں اور بھائی سے کرنے لگی تھی۔ ایسے اگر زین کے سامنے پیش آتی یا خود سے زین کو کچھ کہہ دیتی تو کیا منہ دکھاتیں ثمرہ خاتون اس فرشتہ سیرت انسان کو؟ زین کی موجودگی میں انھوں نے پھر کبھی گڑیا کے کمرے میں جھانکنے کی کوشش نہ کی تھی۔ انکو دیکھ کر گڑیا پھر سے کوئی ضد کرنے لگ جاتی تو؟۔۔۔ اچھا تھا کہ جب تک زین ہوتا تھا ان کی جان چھوٹی رہتی تھی۔ اور اس کے بعد بھی جو وہ سارا دن اپنے کمرے میں بند رہ کر گزارتی تھی۔ اس پہ بھی ثمرہ خاتون کو اطمینان تھا۔ گڑیا کے اونچے عزائم اور پڑھائی کے جنون سے وہ واقف تھیں۔ گڑیا بورد میں ٹاپ کرنا چاہتی تھی۔ ایسے میں وہ پڑھائی میں دن اور رات ایک نہ کرتی تو کیا کرتی؟
پھر امتحانات آئے اور گزر بھی گئے۔ وہ پرچہ دے کر آتی تو ثمرہ خاتون پوچھتیں کہ کیسا ہوا پرچہ؟
’ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ جیسا بھی ہوا۔ ‘
یہ گڑیا کا جواب تھا۔ اس کی ایک ضد کیا انھوں نے نہیں مانی تھی۔ گڑیا دن بدن تمیز اور لحاظ کی ایک نئی حد پھلانگ رہی تھی۔ زچ ہو کر انھوں نے گڑیا سے کچھ پوچھنا ہی چھوڑ دیا۔ امتحانات کے بعد بھی گڑیا کا وہی معمول اور رویہ رہا۔ کمرے سے نکلتی تھی نہ کسی سے بات کرتی تھی۔ ویسی ہی خاموش، اداس، الجھی ہوئی اور چڑچڑی۔۔۔ پہلے تو وہ معتجب ہوئیں۔ پھر سوچا کہ گڑیا اب اپنے رزلٹ کی ٹینشن لے رہی ہے۔ بھئی معمولی تو نہیں بورڈ میں پوزیشن لینے کی خواہش کرنا۔ اب اس نے اتنی محنت کی تھی۔ اس کے بعد پریشر تو بنتا تھا۔ وہ ضرور خوفزدہ تھی کہ بورڈ میں اس کی پوزیشن نہ آئی تو کیا ہوگا؟ اس کی ساری محنت رائیگاں جائے گی۔ 
رزلٹ آنے تک کے دنوں میں بھی زین کا آنا جانا ان کے گھر لگا رہا۔ دو چار بار ان کی غیر موجودگی میں بھی وہ ان کے گھر آیا۔ شاہد نے بتایا کہ جتنا وقت بھی وہ گھر میں رہا گڑیا کے کمرے میں ہی رہا۔اور دو چار بار تو زین اسے گھمانے پھرانے کے لئے ساتھ بھی لے گیا۔ وہ بہت خوش تھیں کہ زین گڑیا کے لئے اتنا فکر مند اور اس پہ اتنی توجہ دے رہا ہے۔ ضرور وہ گڑیا کے پاس بیٹھ کر اسے سمجھاتا اور اسے یقین دلاتا تھا کہ اس نے بہت محنت کی ہے۔ اسلئے وہ زیادہ ٹینشن نہ لے۔ بورڈ میں تو اس کی پوزیشن یقینی ہے۔ اور باہر بھی لے جاتا تھا۔ یہ اور بھی اچھی بات تھی۔ گھر میں ایک کمرے میں تنہا رہ رہ کر وہ کتنی گم صم اور بیمار سی رہنے لگی تھی۔ اچھا تھا کہ زین اسے تھوڑا باہر لے جاتا تھا۔ تازہ ہوا کھلا لاتا تھا۔ اور ان کی وہ ناشکری اور بےقدری اولاد۔ پیٹھ پیچھے بھلے سے جتنی مرضی نفرت اور ناگواری ظاہر کر لے۔ اس کی ضد میں اپنی ماں سے بدتمیزی کر لے۔ زین کی موجودگی میں اس کے سامنے چوں تک نہیں کرتی تھی۔ جیسا وہ کہتا تھا ویسا ہی کرتی تھی۔ اور اس کا بھی سارا کریڈٹ وہ زین کو دیتی تھیں۔ وہ اسکی نیکی اور اچھائی تھی کہ گڑیا اس کے سامنے کچھ بول نہیں پاتی تھی۔

❊   ❊   ❊   ❊   ❊   ❊

گڑیا کا رزلٹ آیا۔ وہ رزلٹ نہیں ایک ایٹمی بمب تھا جو ثمرہ خاتون کے سر پہ پھٹا تھا۔ بورڈ تو کیا، گڑیا نے تو اپنی کلاس میں بھی پوزیشن نہ لی تھی۔ انتہائی معمولی نمبروں سے گریڈ سی لے کر پاس ہوئی تھی۔ سارے مضامین میں نمبر کم تھے جبکہ ریاضی میں تو گریس مارکس دے کر اسے پاس کیا تھا اگلوں نے۔ اتنا گندا رزلٹ دیکھ کر ثمرہ خاتون کا پارہ ساتویں آسمان پہ جا پہنچا۔ انکی باقی نندوں اور دیور جیٹھوں کے بچے پوزیشن لے کر نہ صحیح، پھر بھی پاس تو آسانی سے ہو گئے تھے۔ لیکن گڑیا۔ اس نے تو اتنا گندا رزلٹ لا کر دنیا جہان میں ان کا منہ کالا کر کے رکھ دیا تھا۔ ان کی عمر بھر کی کمائی عزت مٹی میں ملا دی تھی۔ اب کیا کسی نے ماننا تھا کہ گڑیا ایک ذہین سٹوڈینٹ تھی جو ہمیشہ کلاس میں پوزیشن لیتی رہی تھی؟۔۔۔ نہیں۔ ہر کسی نے اب یہی کہنا تھا کہ گڑیا شروع سے ہی نالائق تھی۔ ثمرہ خاتون پیسے دے کر اس کو پوزیشن دلواتی رہی تھیں اور اب بورڈ کے پیپرز میں ساری قلعی اتر گئی تھی۔ اور اتنا گندا رزلٹ کیوں آیا تھا گڑیا کا؟ اگر پیپر اتنے گندے دیے تھے تو سارا دن کمرے میں بند وہ کیا کرتی رہتی تھی؟  ثمرہ خاتون سب سمجھ گئیں اور اب وہ خاموش نہ رہ سکیں۔ چھڑی لے کر جوان بیٹی کو دھن کر رکھ دیا۔
’ صرف ایک ناجائز ضد نہ ماننے کا بدلہ لیا تم نے۔ سارا دن کمرے میں بند جانے کیا کرتی رہی اور کتابوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ جس کی ٹیوشنیں دینے کے لئے وہ فرشتہ صفت آدمی اپنی دن بھر کی تھکن کے باوجود روز گھنٹہ گھنٹہ اور دو دو گھنٹے پڑھاتا رہا اس میں بھی رعایتی پاس۔۔۔ کم بخت، نالائق۔ مجھ سے بدلہ لینے کے لئے۔ میری ضد میں توُ نے جان بوجھ کر کیا ایسا؟۔۔۔ مجھے شرمندہ اور ذلیل کروانے کے لئے۔۔۔ مجھے مایوس اور رسوا کرنے کا یہی ایک راستہ مِلا تھا تجھے؟ یہ نہیں سوچا کہ اس سے اپنا مستقبل خراب کر رہی ہے۔ اپنی زندگی خراب کر رہی ہے۔ ‘
اس موم کی گڑیا پہ چھڑیوں کی برسات کرتے ہوئے انھوں نے ذرا رحم نہ کیا۔ وہ غصے سے چلاتی رہیں۔ اسے سناتی رہیں۔ اور وہ روتی، چلاتی مار کھاتی رہی۔ 
اس دوپہر وہ بےحد برا موڈ لئے لاؤنج میں بیٹھی تھیں جب زین چلا آیا۔
’ اسلام علیکم آپا! کیسی ہیں؟ ‘
زین کی آواز میں وہ معمول کی سی بشاشت نہ تھی۔
’ بھئ کچھ نہ پوچھو۔ اس لڑکی نے تو مجھے کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔ ‘
ثمرہ خاتون بہت جلی بھنی بیٹھی تھیں۔ زین کے چہرے پہ سایہ سا آ کر لہرا گیا۔
’ کیا ہوا؟۔۔۔ ‘      ’ تمہیں نہیں معلوم؟۔۔۔ آج میٹرک کا رزلٹ نکلا ہے۔ ‘
ثمرہ خاتون نے بتایا تو زین نے جیسے طمانیت کی سانس لی۔ ثمرہ خاتون کو کبھی کبھی اس کے رویے سے الجھن ہوتی تھی۔ وہ کیوں بلا سبب ایسی عجیب گہری نظروں سے انھیں دیکھنے لگتاتھا؟ کبھی ایسے لگتا تھا کہ وہ ان کی معمولی سی بات پہ بوکھلا گیا ہے۔ پھر وہ ایسے موقعے پہ مطمعین ہوتا تھا جہاں اسے اصل میں پریشانی یا الجھن ظاہر کرنی چاہیئے ہوتی تھی۔ وہ خود اس کے اس غیر متوقع سے رویے پہ الجھتی تو تھیں۔ لیکن ساتھ ہی سر جھٹک دیتی تھیں۔ جب کوئی بات ہوتی ہی نہ تھی تو اس کے رویے کو کیا اہمیت دینی یا اس سے سوال کرنا؟
’ ہاں آپا! ۔۔۔ میں بھی بہت حیران ہوا ہوں۔ میں نے تو اسے جی جان سے امتحان کی تیاری کروائی تھی۔ اس نے کبھی کہا بھی نہیں کہ اسے کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔ ‘
زین نے شرمندہ اور متاسف سے لہجے  میں صفائی پیش کی۔ ثمرہ خاتون شرم سے پانی پانی ہو گئیں۔
’ ارے تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ صرف حساب میں تھوڑا گندا رزلٹ دیا ہے اس نے جو میں تمہیں الزام دوں گی۔ تم نے تو اپنے طور پر پوری کوشش کی ہے۔ بہت محنت کی ہے تم نے۔ تمہاری توجہ اور مدد کے لئے میں تمہارا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے۔ یہ تو میری اولاد ہی نالائق نکلی جس نے جان بوجھ کر گندے پرچے دیئے۔ ‘
ثمرہ خاتون نے کہا تو زین اور بھی مطعین سا ہو گیا۔
’ کہاں ہے وہ اس وقت؟ کیا اپنے کمرے میں؟ ‘
زین نے پوچھا تو ثمرہ خاتون نے چہرے کے بگڑے زاویوں کے ساتھ سر ہلا دیا۔
’ میں ذرا اسے دیکھ کر آتا ہوں۔ ‘ زین نے بڑبرانے کے انداز میں ثمرہ خاتون کو مطلع کیا۔ ثمرہ خاتون نے سر جھٹکنے کے انداز میں ہلا دیا۔ زین اُٹھ کر گڑیا کے کمرے میں چلا گیا اور ثمرہ خاتون نے ریموٹ اٹھا کر
 ٹی۔وی آن کر لیا۔ اب مزاج اتنا بگڑا ہوا تھا۔ اسے درست کرنے کے لئے کچھ تو کرنا تھا۔ کوشش کے باوجود وہ ٹی۔وی پہ چلتے پروگرام میں من نہ لگا سکیں۔ ایک کے بعد ایک انھوں نے بہت سے چینل بدلے لیکن آج کی خبر کوئی معمولی نہ تھی۔ ایسے حواسوں پہ سوار ہوئی تھی کہ کسی طور دھیان نہیں بٹ رہا تھا۔ انھوں نے سر گھما کر گڑیا کے کمرے کی جانب دیکھا۔ 
( ذرا جا کر دیکھوں تو۔۔۔ زین کو کیا بتا رہی ہے؟ کہیں کچھ ایسا نہ بک دے جو مجھے زین کے سامنے شرمندہ کر دے۔ )
ثمرہ خاتون نے سوچا اور اُٹھ کر گڑیا کے کمرے کی طرف چل دیں۔ پہلے تو دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی۔ لیکن اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ انھوں نے کھٹ سے دروازہ کھول دیا۔ سامنے کا منظر دیکھ کر ثمرہ خاتون کے ہوش اڑ گئے۔ زین گڑیا کے ساتھ۔۔۔۔۔ 
’ زین! ‘
وہ ایسے حلق کے بل چلائی تھیں کہ درودیوار تک کو ہلا ڈالا تھا۔ زین ہڑبڑا کر گڑیا کو چھوڑتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ گڑیا خوف سے پتھرائی ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ اس کی حالت سے معلوم پڑتا تھا کہ زین نے کس قدر اسے انڈر پریشر کر رکھا تھا۔ زین حواس باختہ تھا اور اسکی یہ حواس باختگی دیکھ کر ثمرہ خاتون کا دماغ اور بھی خراب ہو رہا تھا۔ ان کے اندر ایسی شدید آگ بھڑک رہی تھی کہ وہ اسے سخت ترین الفاظ کہنا چاہتی تھیں۔ ایسے الفاظ جو زین کی حرکت کے مطابق ہوں اور انھیں کہہ کر ان کے اندر کی آگ ٹھنڈی ہو سکے۔ لیکن وہ جتنا بھی سخت لفظ بولنا چاہتیں۔ زین کی اس حرکت کے آگے ہیچ معلوم ہوتا تھا۔ انسان الفاظ کے معاملے میں کبھی کبھی کتنا بےبس ہو جاتا ہے۔ ایک انسان ہی ذلت اور گھٹیاپن کی ان پستیوں میں چلا جاتا ہے کہ اس کی پستیاں بیان کرنے کے لئے بھی لفظ نہیں ملتا جو اسکے ساتھ پورا پورا انصاف کر سکے۔ گھٹیا سے گھٹیا اور غلیظ سے غلیظ لفظ بھی انسان کی پستی کے آگے اپنی وقعت کھونے لگتا ہے۔ ایسی ہی بےبسی اس وقت ثمرہ خاتون نے محسوس کی۔ غیض و غضب نے جیسے ان کی قوتِ گویائی سلب کر لی تھی۔
’ آپا!۔۔۔وہ۔۔۔ ‘
زین ہکلایا۔ پھر کمل ہوشیاری سے صورتحال کو سنبھالتے ہوئے شرافت کے ساتھ بولا۔
’ آپ غصہ نہ کریں۔۔ میں ابھی جا رہا ہوں۔۔ ٹھیک ہے؟۔۔۔ میں ابھی جا رہا ہوں۔ ‘
ہاتھ اُٹھا کر انھیں کچھ بھی کہنے سے منع کرتا بڑی شرافت اور آسانی سے وہ کمرے سے نکل گیا۔ جب وہ ثمرہ خاتون کے قریب سے گزرنے لگا تو ثمرہ خاتون کا دِل چاہا کہ اس کو پکڑ کر اسکی پٹائی کریں۔ اس کے بال نوچیں۔ لیکن ان کی دھاڑ سن کر شاہد بھی وہاں آن پہنچا تھا۔ اس کے سامنے سب تماشہ ہوتا اور اسے پتا چلتا تو اس ناسمجھ بچے کے ذہںن پہ کیا اثر پڑتا؟ کس طرح سے لیتا وہ اس سارے واقعے کو؟۔۔۔ وہ اپنی عمر کے اس حصے میں تھا جب وہ کوئی بات ٹھیک سے سمجھ سکتا تھا اور نہ ہی ناسمجھی میں مکمل طور پر بہلایا جا سکتا تھا۔ پھر اسے کیا بتاتیں؟ کیسے بتاتیں؟ کچھ واقعہ اتنا بڑا اور اتنا غیرمتوقع اور خوفناک تھا کہ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو گئی تھی۔ جو تھوڑا سوجھا تھا وہ بھی مصلحت کے ہاتھوں نہیں کیا۔ زین آرام سے وہاں سے چلا گیا۔
’ کیا ہوا امی!؟ ‘  شاہد نے سادگی کے ساتھ پوچھا۔
’ کچھ نہیں، تم جاؤ اپنے کمرے میں۔ ‘
انھوں نے شاہد کو اس کے کمرے میں بھیجا۔ پھر گڑیا کی جانب دیکھا۔ اس کی آنکھیں تو اپنی ماں پہ گڑھ سی گئی تھیں۔ کیا تھا ان نظروں میں جو اس ماں کے وجود کے آر پار ہو گئی تھیں۔ اپنی ماں سے شکواہ۔ ٹوٹے اعتماد کی کرچیاں۔ ایک انسان کو تو اپنی ماں پہ ہی دنیا میں سب سے زیادہ بھروسہ ہوتا ہے۔ اور ان آنکھوں میں وہ بھروسہ اٹھ چکا تھا۔ ثمرہ خاتون بےحد دکھی اور شرمندہ گڑیا کی طرف بڑھنے لگیں۔
’ گڑیا! میری بچی!۔۔۔ ‘
’ قریب مت آئیں میرے۔ ‘ گڑیا دھاڑی۔ بدتمیزی اور بدلحاظی سے حلق کے بل چلائی۔ ’ نکل جائیں میرے کمرے سے۔ آپ میری ماں نہیں ہیں۔ مجھے آپکی صورت سے بھی نفرت ہے۔نکل جائیں۔ ابھی اسی وقت نکل جائیں۔‘
وہ ہسٹریائی انداز دونوں ہاتھ اپنے سر پہ رکھ کر چلانے لگی تھی۔ 
’ گڑیا! مجھے بتایا کیوں نہیں کہ وہ گھٹیا آدمی۔ ‘
انھوں نے پھر بھی کوشش کی گڑیا سے ہمدردی جتانے کی۔ گڑیا اسی طرح غصے سے پاگل ہوئی چلائی۔
’ آپ نے میری زندگی برباد کی ہے۔ میری مجرم آپ ہیں۔ چلی جائیں یہاں سے ورنہ میں آپ کا خون کردوں گی۔ ‘
گڑیا رو رہی تھی، چلا رہی تھی۔ اس وقت وہ بالکل پاگل ہوئی ہوئی تھی۔ اور ثمرہ خاتون، ان کی تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا تھا ان کے ہاتھوں۔

❊   ❊   ❊   ❊   ❊   ❊

وہ دن ثمرہ خاتون کی زندگی کا کڑا ترین دن تھا۔ پہلے گڑیا کے برے رزلٹ کی خبر نے انھیں ہلا ڈالا۔ پھر زین کی اصلیت منکشف ہونے پہ تو ان کی روح تک فنا ہو گئی تھی۔ زین کی موجودگی میں تو ان کا دماغ نہ چلا تھا۔ لیکن بعد میں وہ سوچنے لگیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیئے۔ ایک بار جی چاہا کہ فون کر کے اپنی نند کو اس کے شوہر کی کرتوتیں بتا دیں۔ بتا دیں کہ اس کا شوہر اس کی بھتیجی کے ساتھ کیا کرتا رہا ہے۔ لیکن کیسے بتاتیں؟ کیا وہ یقین کر لیتی؟ زین صاف مکر جاتا اور سارا الزام معصوم گڑیا پہ ڈال دیتا۔ یا شاید سرے سے ہی مکر جاتا کہ وہ کبھی ان کے گھر آیا ہی نہیں۔ دونوں صورتوں میں بدنامی ان کی اور ان کی بیٹی کی ہوتی۔ پورے خاندان میں اس کا چرچا ہوتا۔ جو یقین کرتے اس واقعے کا کہتے کہ گڑیا میں اور اس کی ماں میں خرابی ہے۔ جو یقین نہ کرتے وہ بھی کہتے کہ ثمرہ خاتون نے فساد ڈالنے کے لئے ایسا پراپگینڈا کیا ہے۔ اپنی بیٹی کا نام استعمال کرتے ہوئے اس عورت کو شرم نہ آئی۔  دونوں صورتوں میں ذلت اور بدنامی ان کے اور ان کی بیٹی کے حصے میں آتی۔ ان کی بیٹی اور ان کے کردار پہ کیچڑ اچھالا جاتا۔ اسلم کو فون کر کے بتانے کا سوچا تو وہ بھی نہ کر سکیں۔ اسلم کے یقین کرنے نہ کرنے کی نوبت تو بعد میں آتی۔ سب سے پہلے تو وہ ثمرہ خاتون سے سوال کرتے کہ زین ان کے گھر آنا کب شروع ہوا اور بات اس حد تک پہنچی کیسے؟ انھیں کیوں بےخبر رکھا گیا؟ ایسی کیا وجہ تھی زین ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کا فرد بن گیا تھا اور انھیں خبر تک نہ ہونے دی گئی؟ اسلم تو سب سے پہلا شک اپنی بیوی پہ کرتے۔ ان کے کردار اور نیت پہ کرتے۔ وہ انھیں کیسے یقین دلاتیں کہ وہ گھٹیا آدمی ان کا بھائی بنا ہوا تھا۔ انھیں آپا آپا کہہ کر اپنے اعتبار اور خلوص کی پٹی باندھ رکھی تھی ان کی آنکھوں پہ۔ اور جس بچی کے ساتھ بدسلوکی کرتا رہا۔ اسے ’ اپنی بیٹی ‘ اور ’ میری بیٹی ‘ کہتے زبان نہیں تھکتی تھی۔ بارہا وہ کہہ چکا تھا کہ ’ میری نادیہ اور گڑیا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ‘ اب جو شخص ایک بچی کو اپنی سگی بیٹی کے ساتھ مِلائے وہ اس پہ ایسی نظر ڈالے گا اس کا انھیں کیسے گمان گزر سکتا تھا؟ انھوں نے تو جب بھی زین کے خلوص پہ شک کیا تھا صرف خود کو لے کر کیا تھا۔ کہ کہیں زین ان کے شوہر کی غیر موجودگی میں ان پہ ڈورے ڈالنے کی کوشش نہ کر رہا ہو۔ عمر اور رشتے کے اعتبار سے ان کا جوڑ بنتا تھا زین کے ساتھ۔ گڑیا تو بچی تھی اور اس کی بھتیجی تھی۔ بھتیجی پہ نظر کیسے ڈال سکتا تھا۔ وہ بھی اپنی بیٹی کی ہم عمر پہ؟ لیکن اس سب کا یقین وہ اسلم کو کیسے دلاتیں؟ انھیں کیسے سمجھاتیں؟ صرف اسی سوال کا کیا جواب دیتیں کہ ان سے زین کا آنا جانا کیوں چھپایا گیا؟ بہت سوچ بچار کے بعد وہ اسی تلخ نتیجے پہ پہنچیں کہ وہ اسلم یا خاندان میں کسی کو بھی اس بارے میں نہیں بتا سکتیں۔ بات نکلتی اور سنگین نتائج ان کو اور ان بیٹی کو بھگتنے پڑتے۔ گڑیا بدنام ہو جاتی اور کچھ بعید نہیں تھاکہ ایسی حقیقت کھلنے پہ اسلم انھیں طلاق دے دیتے۔ سب کچھ تباہ ہو جاتا۔ سو انھوں نے خاموشی اختیار کر لی اور سوچ لیا کہ اب زین نے ان کے گھر کا رُخ کیا تو وہ اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیں گی۔ بےشک انھیں زین سے بہت سہولت اور بچت مِل جاتی تھی۔ لیکن یہ ان کی بیٹی کا معاملہ تھا۔ اور اس معاملے میں وہ کوئی بھی سمجھوتہ کبھی نہیں کر سکتی تھیں۔
دن گزرتے گئے۔ وہ منتظر اور چوکس رہیں کہ اب زین آئے گا۔ اب زین آئے گا۔ لیکن وہ بھی خلافِ توقع خاصی شرم والا نکلا۔ ایک بار رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد دوبارہ کبھی اس نے ان کے گھر کا رُخ نہ کیا۔ بہت عرصہ گزر گیا۔ وہ اس کی طرف سے تو مطمعین اور بےفکر ہو گئیں۔ لیکن اپنی بیٹی کے دِل سے اپنی نفرت مٹا سکیں نہ اس کا اعتبار جیت سکیں۔ اس کا جو بھروسہ ان پر سے اُٹھ گیا تھا تو اس کے بعد اس نے انھیں دوبارہ موقع نہ دیا۔ اپنی بیٹی کی نظر میں وہ ہمیشہ کے لئے اعتماد اور عزت کھو چکی تھیں۔
وقت گزرتا گیا۔ گڑیا کا آگے کالج شروع ہو گیا۔ دنیا، معاشرے اور مرد ذات سے وہ اس قدر ڈر چکی تھیں اور ان کا اعتماد اس قدر مجروح ہو چکا تھا کہ انھوں نے اسے اب کسی پرائیویٹ کالج کی بجائے ڈگری کالج میں داخلہ دلوایا تھا  تاکہ وہ لڑکوں اور آدمیوں کے شر سے بچی رہے۔ ڈگری کالج میں سب لڑکیاں اور خواتین ہی ہوتیں۔ کیا طالبات، کیا استانیاں، کیا کینٹین والیاں۔ تو ڈگری کالج اسے بھیج کر انھیں خاصی تسلی اور اطمینان تھا۔ لیکن کالج جا کر بھی گڑیا کا رویہ نہ بدلا تھا۔ وہ کبھی ان خوفناک لمحات کے اثر سے نکل ہی نہ سکی تھی۔ ان سے اس کی دوری اور بدگمانی بھی قائم تھی۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے وہ کچھ بدلنے لگی۔ ان کے ساتھ تو اس
 نے رویہ نہ بدلا تھا لیکن وہ اس ڈر سے نکل آئی تھی۔ اب وہ بازاروں میں گھومنے لگی تھی۔ اپنے لئے نِت نئی چیزیں ، میک، کپڑے اور جیولری وغیرہ لینے لگی تھی۔ اس کا زیادہ تر وقت شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گزرنے لگا تھا۔ پڑھائی میں اس کی دلچسپی ختم تھی۔ بس اتنا ہی پڑھتی تھی کہ پاس ہو  جائے۔ وہ اس کے اس بدلتے رویے سے کچھ کچھ پُرامید ہو گئی تھیں۔ ابھی اگر وہ اس خوف سے نکل کر زندہ دِل ہو گئی تھی تو جلد ان سے تمام شکایتیں بھلا کر ان کو بھی معاف کر دے گی اور ماں اور بیٹی کے رشتے میں پھر سے بھروسہ قائم ہو جائے گا۔ وہ ایسا سوچنے لگی تھیں۔ پھر اسلم بھی سعودیہ میں اپنا دو سال کا کانٹریکٹ پورا کر کے واپس آ گئے۔ انھوں نے بیٹی کے یہ تیور دیکھے تو بیگم سے سوال کرنے لگے۔
’ دھیان کیوں نہیں رکھتی تم لڑکی کا؟۔۔۔ اتنی پڑھاکو اور ذہین بچی تھی۔ اور اب کالج کے بستے میں کتابیں کم اور میک اپ کا سامان زیادہ بھر کر لے جاتی ہے۔ ‘
اسلم نے ثمرہ خاتون کے سامنے بیٹی کی شکایت رکھی۔
’ فکر کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔ کالج جا کر بچے تھوڑے لاپرواہ ہو جاتے ہیں۔ اور گورنمنٹ کالجوں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ سہیلیاں اکٹھی بیٹھ کر ایک دوسرے کا میک اپ کرتی اور مہندی وغیرہ لگاتی رہتی ہیں۔ کیا ہوا جو یہ بھی  دِل خوش کر لیتی ہے۔ وہاں کونسا کوئی لڑکے ہیں جو خدانخواسطہ کسی اونچ نیچ کا ڈر ہو۔ ‘
انھوں نے اسلم کے سامنے بیٹی کی وکالت کر ہی دی۔ اصل میں وہ کیوں بیٹی کو کوئی روک ٹوک نہیں کر رہی تھیں۔ وہ کہاں کچھ بتا سکتی تھیں؟

❊   ❊   ❊   ❊   ❊   ❊

دن اسی طرح گزرتے جا رہے تھے۔ اس روز گڑیا اپنا لنچ باکس گھر ہی بھول گئی۔ بھوک کی وہ بہت کچی تھی۔ اور جہاں تک ثمرہ خاتون کو یاد پڑتا تھا۔ اس دن اس کے پاس پیسے بھی نہ تھے کہ کینٹین سے کچھ لے کر کھا لیتی۔ انھون نے یہی سوچا کہ خود جا کر اس کے کالج میں لنچ باکس دے آئیں اور کچھ پیسے بھی پکڑا آئیں۔ اسلم تو کام پہ جاچکے تھے اور شاہد سکول۔ انھوں نے خود ہی ٹیکسی لی اور گڑیا کے کالج جا پہنچیں۔ ابھی وہ مین گیٹ سے بہت پیچھے تھیں کہ انھیں گڑیا گیٹ کے باہر بیگ کندھے پہ ڈالے کسی کا انتظار کرتے ہوئے دکھائی دی۔ کالج یونیفارم میں وہ فُل میک اپ اور جیولری وغیرہ پہن کے کھڑی تھی۔ 
’ بھائی ذرا گاڑی سائیڈ پہ روکنا۔ ‘
الجھن کا شکار ہو کر انھوں نے ٹیکسی ڈرائیور سےکہا۔ ڈرائیور نے ٹیکسی سڑک کے کنارے روک دی۔ وہ شیشہ نیچے کر کے گڑیا کو آواز دیا چاہتی تھیں کہ زین کی گاڑی گڑیا کے سامنے آ کر رکی۔ ان کے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ زین کو ماضی کا حصہ بنے بہت طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ پھر آج وہ وہاں کیسے؟ وہ بھی گڑیا کے عین سامنے۔ انھیں لگا ان کی نظروں کو دھوکا ہوا ہے۔ وہ گاڑی کسی اور کی ہو گی۔ لیکن ڈرائیور کی سائیڈ کا دروازہ کھلا اور زین نکل کر گڑیا کی طرف بڑھا۔ ثمرہ خاتون کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ 
( اس کی اتنی جرأت۔ )
پورے بدن کا خون وہ چہرے پہ سمیٹے غصے سے دروازہ کھول کر ٹیکسی سے باہر آئیں۔ انھوں نے زین کو دیکھ کر گڑیا کو مسکراتے دیکھا۔ زین نے اس کی تیاری کو ستائشی کم اور گندی نظروں سے زیادہ دیکھ کر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ جس پہ گڑیا خوش ہوئی۔ ثمرہ خاتون یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گئیں۔ ان کے سامنے گڑیا نے زین کے بازو میں اپنا بازو ڈالا اور اس کے ساتھ چلنا چاہتی تھی کہ وہ برداشت نہ کر سکیں۔
’ گڑیا۔۔۔ ‘
وہ جتنا زور اور رعب سے چلا سکتی تھیں وہ چلائیں۔ ان کے اس طرح اچانک آ دھمکنے پہ گڑیا اور زین دونوں ہڑبڑائے۔ وہ بھاگتی ہوئی ان کی جانب بڑھیں۔ زین نے ان ہی گہری نظروں سے انھیں اور پھر گڑیا کو دیکھا۔ جن سے انھیں کبھی الجھن ہوتی تھی۔ لیکن اب وہ صاف سمجھ رہی تھیں کہ وہ کیا بھانپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گڑیا کے چہرے پہ اعتماد اور اطمینان قابلِ دید تھا۔ وہ گھبرائی تھی نہ اس کے چہرے پہ کوئی پشیمانی تھی۔ بالکل نڈر ہوئی وہ کھڑی اپنی ماں کے قریب پہنچنے کی منتظر تھی۔
’ آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ ‘
ان کے قریب پہنچنے کی دیر تھی۔ گڑیا نے بدلحاظی سے سوال کیا۔ اس کے لہجے میں ثمرہ خاتون کے لئے نفرت کے ساتھ غیریت بھی تھی۔ 
’ کہاں جا رہی ہو تم اس شیطان کے ساتھ؟ ‘  
انھوں نے درشتی سے سوال کیا۔ پھر زین کو دیکھا جو گڑیا کے تن کر کھڑے ہونے پہ اور بھی شیر ہو گیا تھا۔ مجال ہے جو اس آدمی کے ماتھے پہ پسینے کا کوئی قطرہ یا آنکھ میں کوئی شرم ہو۔
’ بےغیرت، بےحیاء ، بد کردار اور انتہائی پرلے درجے کے گھٹیا آدمی۔ کچھ تو شرم و حیاء نام کی کوئی چیز ہوتی ہے انسان میں۔ تمہاری بیٹی کی ہم عمر ہے یہ اور تم۔۔ ‘
جو باتیں وہ قریب دو سال پہلے زین کو سنا نہ پائیں تھیں وہ اب سنا رہی تھیں۔ زین کا چہرہ لال ہوا۔ بدتمیزی سے کچھ کہنا چاہتا تھا کہ گڑیا بول پڑی۔
’ انھیں کیا کہہ رہی ہیں؟ جو بھی کہنا ہے مجھ سے کہیئے۔ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ کیوں میرا پیچھا کرتی یہاں تک پہنچ آئی ہیں۔ ‘
گڑیا کے لہجے میں تضحیک اور تحقیر تھی۔ ان کا جی تو چاہا کہ یہیں پہ اپنی بیٹی کو اکٹھے پانچ سات تھپڑ لگا دیں۔ لیکن اس شیطان کے سامنے وہ اپنی بیٹی پہ ہاتھ نہیں اٹھانا چاہتی تھیں۔ اور نہ ہی کوئی سخت بات کہنا چاہتی تھیں۔ اس لئے دھمکاتے لہجے میں بولیں۔
’ تم سے تو میں گھر چل کر نمٹوں گی۔ پہلے مجھے اس کی خبر لینے دو۔ یہ نیچ اور گھٹیا آدمی، گھر سے بےعزت ہو کر نکلا تو میری بیٹی کا پیچھا کرتا ہوا اس کے کالج تک پہنچ گیا۔ اس ____ زادے کو تو میں۔۔۔۔ ‘
انھوں نے پھر سے اپنی توپوں کا رُخ زین کی طرف موڑا تھا کہ گڑیا نے پھر سے ان کی تضحیک کرتے ہوئے ان کو ٹوک دیا۔
’ بس، بس۔ بند کریں یہ ڈرامہ! جب آپ کو بولنا چاہیئے تھا تب تو آپ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا تھا۔ اپنی سہولت اور مفاد پہ اپنی بیٹی کی عزت کا سودا کرنے والی عورت۔ آج میاں گھر واپس آ گیا ہے تو غیرت کا ڈرامہ کر رہی ہے! ‘
ثمرہ خاتون ہکا بکا رہ گئیں۔ گڑیا انھیں کیا کہہ رہی تھی اور کیا سمجھ رہی تھی۔ وہ تو یہ سن کر گنگ رہ گئی تھیں۔ جبکہ گڑیا زین سے بولی۔
’ چلئے چلتے ہیں۔ ورنہ یہ تو تماشہ کرتی رہیں گی۔ ‘  کہہ کر اس نے زین کے ساتھ جانے کے ارادے سے ایک قدم بڑھایا تھا کہ ثمرہ خاتون تحکم سے دھاڑیں۔
’ خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو۔ چلو! ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ گھر چلو۔ ‘
’ نہیں چلوں گی تو؟۔۔۔ ‘
گڑیا بےخوفی سے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جیسے تحدی دے رہی تھی۔ ثمرہ خاتون کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اپنی بیٹی کا یہ بےباک رویہ دیکھ کر تو ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا تھا۔ پھر انھوں نے ترپ کا پتہ نکالا۔
’ میں ابھی تمہارے باپ کو فون کر کے سب بتا دوں گی۔ ‘
ان کا دھکانا تھا کہ گڑیا نے استہزائیہ قہقہہ لگایا۔
’ کیا واقعی۔ ‘ وہ ایسے ہنسی ضبط کرتی پوچھ رہی تھی جیسے انھوں نے اسے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔ بولی۔ ’ ہے آپ میں اتنی جرأت؟۔۔۔ جو عورت اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بچی کو لٹتے دیکھے اور اپنی زبان اور آنکھیں بند کر لے۔ وہ عورت کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ یہ گیدڑ بھبھکیاں جا کر اس کو دیں جو آپ کو جانتا نہ ہو۔ اگر اتنی ہی ہمت اور غیرت ہے تو جائیں، بتا دیں ابو کو۔ میں بھی ان کو آپ کی ساری کرتوتیں بتا دوں گی۔۔۔ چلئے زین۔ ‘ 
 ثمرہ خاتون کو ایک اور شاک لگا۔ صرف گڑیا کا ان پر سے بھروسہ نہیں اٹھا تھا۔ بلکہ وہ ان کو اپنا دشمن سمجھ کر خود بھی ان کی دشمن ہو گئی تھی۔ اپنے بچائے نہ جانے کا اپنی ماں سے انتقام لے رہی تھی اور مزید بھی لے سکتی تھی۔ ثمرہ خاتون کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ جبکہ گڑیا ثمرہ خاتون کو تحدی دینے کے بعد رُکی نہیں۔ زین کو چلنے کا کہنے کے ساتھ ہی گاڑی کی جانب قدم بڑھا دیئے۔
’ گڑیا! نہیں۔۔۔۔ گڑیا!۔۔۔ گڑیا۔ ‘
وہ روکتی اور پکارتی رہ گئیں۔ گڑیا ان کے سامنے زین کی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی۔ ثمرہ خاتون سے لاتعقلی اور نفرت کے اظہار کے طور پر اپنے چہرے پہ سختی لائے وہ سامنے دیکھ کر انھیں نظرانداز کر رہی تھی۔ جبکہ ڈرئیونگ سیٹ پہ بیٹھا زین فتح کے احساس سے سر شار گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے آنکھوں میں شیطانی لئے ان پہ ایک تمسخر اڑاتی مسکراہٹ اچھال کر گیا تھا۔ 
’ گڑیا۔ ‘
سڑک پہ فراٹے بھرتی دور جاتی گاڑی کے دیکھتے ہوئے انھوں نے ایک بلند اور لمبی چیخ ماری۔ انھیں کوئی فکر اور پرواہ نہیں تھی کہ وہ کہاں ہیں اور کون کون انھیں دیکھ کر کیا کیا سوچ رہا ہے۔ انھیں خیال تھا تو صرف اپنی بیٹی کا۔ وہ شیطان جانے کب سے ان کی بیٹی کو نوچ نوچ کر کھا رہا تھا۔ وہ تو سمجھتی تھیں کہ وہ ماضی کا حصہ ہو چکا۔ لیکن وہ ان کی بیٹی کے کالج پہنچا ہوا تھا۔ اس کی انھیں کوئی خبر نہ تھی۔ جانے کب سے وہ اس سے مِل رہا تھا۔ کب سے اسے گھما رہا تھا۔ جانے کہاں کہاں لے جاتا تھا۔ کیا کیا کرتا تھا۔ انھیں کبھی خبر نہ ہو سکی تھی۔ اور ان کی بیٹی۔۔۔ وہ بھی اس شیطان کے ساتھ چل پڑی تھی۔ کیوں؟۔۔۔ اس لئے نہیں کہ وہ اسے اچھا لگنے لگا تھا۔ بلکہ اس لئے کہ اس نے جان لیا تھا کہ اسے اس شیطان سے بچانے والا کوئی نہیں۔ اس کی ماں نے کبھی اس کی نہ سنی  تھی، اپنے حرص اور طمع اور ایک غیر پہ اعتبار اور مروت میں کبھی اپنی بیٹی پہ اعتبار نہ کیا تھا۔ کبھی اس کی تکلیف سمجھنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اور جب سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ تب بھی کچھ نہ بولیں تھیں۔ کمزور پڑ گئی تھیں۔ اس کے لئے کھڑا ہونے اور زین کی اس حرکت پہ سخت سے سخت ایکش لینے کی بجائے انھوں نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ ایسے میں ان کی بیٹی کا بھروسہ ان پر سے اٹھ چکا تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ اس کی ماں کبھی بھی اس کے لئے کھڑی نہ ہوگی۔ تو اس نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ وہ درندہ اس بچی کے جوان ہونے سے پہلے ہی اس کی جوانی کھا گیا تھا۔ اور اس نے اپنے وجود کو اس درندے کے حوالے کر دیا تھا۔ 
( کاش کہ مجھے اندازہ ہوتا کہ وہ رزیل اس حد تک جا سکتا ہے۔ کاش کہ ایک غیر پہ آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنے کی بجائے میں نے اپنی بیٹی کی پکار بھی سنی ہوتی۔ کاش اس روز میں مصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموش نہ ہو رہتی۔ اور کچھ نہ کر سکتی تو کم از کم جس وقت اس شیطان کو پکڑا۔ اسی وقت اسے جوتے مار مار کر گھر سے باہر نکالتی۔ اور کچھ نہیں تو میری بیٹی کا بھروسہ تو مجھ پر سے نہ ٹوٹتا۔ وہ اتنا تو جان لیتی کہ اس کی ماں اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی برداشت نہیں کر سکتی۔ اس کے لئے بول سکتی ہے۔ میں شاہد کا خیال کر کے چپ ہو رہی۔ اس شیطان کو کچھ نہ کہہ کر میں نے شاہد کو بہلا لیا۔ اسے جوتے مار مار کر گھر سے نکالنے کے بعد بھی تو میں کوئی جھوٹ گھڑ کر اسے بہلا سکتی تھی۔ یہ ہی کہہ دیتی کہ وہ کچھ چوری کر رہا تھا۔ وہ بچہ تھا۔ بہل جاتا۔ اعتبار کر لیتا میرا۔ اس شیطان کے حوصلے بھی اتنے بلند نہ ہوتے۔ اس رزیل نے بھی میری خاموشی پہ میری کمزوری بھانپ لی۔ میری بیٹی کا پیچھا کرتا کالج تک پہنچ آیا۔ اور آج وہ میری بےبسی کا مذاق اڑاتا مجھ پہ ہنستا ہوا میری آنکھوں کے سامنے میری بیٹی کو لے گیا۔ کاش میری بیٹی کا بھروسہ مجھ پر سے نہ ٹوٹا ہوتا تو وہ پہلی فرصت میں آکر مجھے بتاتی۔ وہ شیطان کامیاب نہ ہوتا۔ یاالله! اب میں کیا کروں؟۔۔۔ کیسے بچاؤں اپنی بچی کو؟ اب بچانے کو باقی رہا کیا ہے؟۔۔۔ کس سے کہوں؟ کیسے کہوں کہ میرے ساتھ کیا ہوا؟ میرے بچی کے ساتھ کیا ہو چکا؟۔۔۔ پہلے تو پھر ہو سکتا تھا کہ اسلم میرا یقین کر لیتے۔ جو بھی میرا انجام ہوتا۔ بھلے سے مجھے طلاق ہو جاتی۔ لیکن وہ اپنی بیٹی کی عزت پر تو سمجھوتہ نہ کرتے۔ میری بچی تو اس بھیڑیے کے ہتھے نہ چڑھتی۔ اب میں کیا کروں؟ کیا بتاؤں ؟ کون یقین کرے گا میرا؟ اب کسی نے یقین کر بھی لیا تو کیا حاصل۔ میری بچی کے ساتھ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔ کیا اب یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا؟ وہ شیطان ایسے ہی میری بچی کو نوچتا رہے گا؟۔۔۔۔ کاش مجھ سے وہ بھول نہ ہوئی ہوتی۔ اس رزیل کو گھر سے نکالنے کے بعد بھی تو پورا ایک سال بنا کسی کی مدد اور سہارے کے میں نے گزارا کیا۔ پھر پہلے کیوں اس غیر پہ اتنا انحصار کرتی رہی؟ کیوں میں نے شروع سے ہی خود انحصاری سے کام نہ لیا۔ زندگی تھوڑی مشکل ہو جاتی۔ لیکن اس سہولت اور آسائش کی اتنی بڑی قیمت تو نہ چکانی پڑتی۔ کاش مجھے وقت پہ عقل آ گئی ہوتی۔ کاش میں نے طمع نہ کی ہوتی۔ اپنی غرض اور لالچ کے لئے ایک غیر پہ اتنا بھروسہ نہ کیا ہوتا۔ کاش اپنی بیٹی کی پریشانی کو سمجھنے کی کوشش کی ہوتی۔ کاش اس کے لئے کوئی اسٹینڈ لیا ہوتا۔ کاش کہ اس وقت میں بولی ہوتی۔ کاش اپنی بچی کا اعتماد نہ کھوتی تو میری بچی کی زندگی یوں تباہ نہ ہوتی۔ کاش۔۔۔۔۔۔ )
ثمرہ خاتون سڑک کے کنارے بیٹھی کاش کر رہی تھیں۔ لوگ ایسے ہی حقیقت سے نظریں چرائے اپنی طمع اور حرص کے نشے میں مست رہتے ہیں۔ زندگی گزر جاتی ہے۔ وقت گزر جاتا ہے۔ پیچھے رہ جاتا ہے تو صرف ’’ پچھتاوا “ ۔

❊   ❊   ❊   ❊   ❊   ❊

ختم شد۔

بدیع الجمال۔

No comments:

Post a Comment