Saturday 7 October 2017

بلاگ 3

خواہش
خواہش بھی ایک عجیب چیزہے۔ انسان ساری زندگی کام کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے میں بسر کر دیتا ہے۔ لیکن خواہش ، خواہش انسان کو زندہ رکھتی ہے۔ اس میں زندگی جینے کی لگن اور مشکل میں حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اگر انسان خواہش نہ کرے تو جینا چھوڑ دے۔ مشکل حالات میں سب چھوڑ چھاڑ کر ہار مان لے، خود کشی کر لے۔  یہ خواہش ہے جو کبھی انسان کو مایوس نہیں ہونے دیتی۔ انسان اپنی خواہش کے حصول کی امید میں کڑے سے کڑے حالات سے گزر جاتا ہے۔ ہر مشکل سے لڑ جاتا ہے۔  لیکن یہ کم بخت خواہش، یہ کبھی پوری نہیں ہوتی۔ ایک خواہش کے حصول کی کوشش میں انسان کیا کیا نہیں کرتا۔ کچھ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور کچھ ناجائز راستے بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ ناجائز راستے اختیار کرنے والوں کو مقصد تو حاصل ہو جاتا ہے۔ مگر یہی خواہش جو کبھی انکی زندہ رہنے کی وجہ تھی ، ان کی زندگی تباہ کر دیتی ہے۔ تب وہ سوچتا ہے کہ یہ کیا کیا میں نے۔ جس کو اپنی خوشی سمجھا، اپنی زندگی کا مقصد سمجھا ، اس میں تو ایسا کچھ تھا ہی نہیں۔ صرف تباہی تھی، بربادی تھی۔ اور جائز راستے پہ چلتے رہنے والے کی خواہش کبھی پوری ہو کر نہیں دیتی۔ ہزاروں لوگ دیکھے ہیں، جو خود اپنی زندگی میں وہ سب حاصل نہیں کر پاتے جس کی انھیں چاہ تھی۔ اپنی ساری زندگی وہ ایک خواہش کے حصول میں لگا دیتے ہیں۔ اس امید پر کہ کبھی وہ کامیاب ہوں گے۔ لیکن ، جب انکو لگتا ہے کہ وقت گزر چکا ہے۔ اب ان کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی ، تب وہ اپنی خواہش اپنے بچوں کو ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔ بیٹا ، میں جو نہیں بن سکا ، تم بننا۔ جو میں نہیں حاصل کر سکا ، تم کرنا۔  یوں والدین  اپنے بچوں کو مجبور کرتے رہتے ہیں اپنی خواہش انکے ذریعے پوری کرنے کےچکر میں ان سے خواہش کرنے تک کا حق چھین لیتے ہیں۔ ایسے کیسز میں اکثر بچے اپنے والدین کی خواہش پوری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، کیونکہ انکو اپنی خواہش پوری کرنے سے غرض ہوتی ہے۔  بعض مجبور ہو کر اور بعض اپنے دل کی خوشی سے والدین کا کہا مان لیتے ہیں۔ پھر وہ چاہے ناکام ہوں یا کامیاب۔ لیکن اصل بات تو یہ ہے نا کہ اپنی کامیابی اپنی ہوتی ہے۔  اولاد کامیاب ہو بھی جائے تو کیا ، انسان اپنے ہارے ہوئے دل کو تالی تو دے لیتا ہے لیکن وہ حقیقی خوشی جو خود حاصل کرنے میں ہے ، وہ تو نہیں ملتی۔
میری بھی بہت سی خواہشیں تھیں۔ کوئی ایک نہیں ، میرا تو یہ حال رہا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔  مگر کم بخت۔ کوئی ایک بھی پوری ہو کر نہ دی۔ میری خواہشوں کہ حصول میں کبھی میری لاعلمی رکاوٹ بنی، کبھی میرے اصول اور کبھی میری عزت نفس۔ میں بہت سا پڑھنا چاہتی تھی۔ میں کبھی بھی پڑھائی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ تعلیم کے حصول کے لئے میں نے بہت جد و جہد کی۔ باقاعدہ ایک جنگ لڑی۔ اپنے حالات سے، اپنے گھر والوں سے، اپنے سماج سے۔ کچھ حد تک کامیاب ہوئی لیکن اتنا نہیں جتنا کہ میں چاہتی تھی۔ مگر میں نے ہار نہ مانی۔ شادی کے بعد بھی بہت کوشش کی کہ جو ہمیشہ پڑھنے کی خواہش تھی اسکو پورا کروں۔ کچھ کورسز تو کر لئے مگر جیسے میں چاہتی تھی میری آج تک کی کوششوں کے باوجود میں کچھ بھی ویسا حاصل نہ کر سکی جیسا میں چاہتی تھی۔
میں ایکٹرس بننا چاہتی تھی۔  اس میں میری عزت نفس آڑے آئی۔ پاکستان میں کوئی ایکٹر یا ایکٹریس بننا چاہے ، اسے جس ذلت سے گزرنا پڑتا ہے اور جو چاپلوسیاں کرنی پڑتی ہیں۔ وہ سب سوچ کر تو میں نے گھر بیٹھے بیٹھے ہی اس پہ دو حرف بھیجے۔ میں کبھی بھی کسی کے سامنے گڑگڑا نہیں سکتی ، کسی کی چاپلوسی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اپنی توہین برداشت کر سکتی ہوں۔ انگلنڈ میں آ کر میں نے کوشش کرنا چاہی ، کیونکہ یہاں کوئی آپ کو ذلیل نہیں کرتا۔ مگر ، میں نے جانا کہ یہاں کی جو ریکوائرمنٹس ہیں۔ میں وہ پورا نہیں کر سکت ی۔ پاکستان میں تو چلو پھر سر پہ دوپٹہ اوڑھ کر بھی آپ کو کام مل سکتا ہے۔ لیکن یہاں آپ پورے کپڑوں میں نہیں چل سکتے۔
مجھے اللہ نے لکھنے کی صلاحیت دی ہے۔ جب میں چھوٹی تھی۔ میری ایسی کوئی خواہش نہیں تھی۔  میں ایسے ہی کہانیاں لکھتی تھی اور ڈائجسٹ میں بھیج دیتی تھی۔  ڈائجسٹ میں اپنی کہانی چھپی دیکھ کر خوش ہو جاتی تھی۔ اس وقت میرے لئے یہ صرف ایک مشغلہ تھا۔ اس کو لے کر میں سنجیدہ نہیں تھی۔ پھر میں انگلنڈ آ گئی۔ ڈائجسٹ میں بھیجنا چھوڑ دیا۔ لیکن لکھنے جنون تھا۔ بس لکھتی رہی اور ردی میں پھینک دیتی رہی۔ پھر میری خواہش ہوئی کہ چلو ایکٹرس نہ سہی ، ایک لکھاری کی حیثیت سے اپنا آپ منواؤں۔ میں جانتی ہوں کہ میرا کام لازوال اور بےمثال ہے۔  میری خواہش ہوئی کہ اسکو پڑھنے والوں تک پہنچاؤں۔ لوگ جانیں اور پڑھیں میرے کام کو۔ یہ میرا بھی حق ہے اور انکا بھی۔ تب میں نے  اپنا یہ بلاگ بنایا۔  یہاں کہانیاں پوسٹ کرنا شروع کیں۔ مگر مجھے کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہ آئی۔ پھر اسی ڈائجسٹ کو ذریعہ بناینا چاہا جہاں پہلے بھی لکھتی تھی۔ ان سے رابطہ کیا۔ شروع میں میرا خیر مقدم کیا گیا۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ میرے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مجھ سے میرا کام منگوا کر رکھ لیا گیا اور میرا کام شائع کرنے کے لئے مجھ سے رشوت کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ سراسر اور بےایمانی اور زیادتی تھی۔ اور میرا اصول رہا ہے۔ میں کبھی بھی کسی کو رشوت دینے کی قائل نہیں۔ صرف یہ پہلی بار نہیں۔ اپنی پڑھائی کے حصول کے دوران اور بہت سے دوسروں موقوں پر بھی مجھ سے میرا حق حاصل کرنے کے لئے رشوت کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ مگر میں نے نقصان اٹھانا گوارا کر لیا۔ اپنی خواہشوں کا گلا دبا دیا مگر رشوت نہیں دی۔ اس بار بھی میں نے اپنے اصول کے تحت رشوت دینے سے منع کیا اور اس کے بعد میں نے خود سے اپنی کتاب چھپوانے  کی کوشش کی۔مگر یہاں بھی۔ اول مجھے کوئی رہنمائی نہیں ملی ، دوسرا جو بھی ملا ، جس سے بھی رابطہ کیا ہر کسی نے مجھے انگلنڈ والی جان کر مجھے بس لوٹنا چاہا ، ناجائز پیسہ بتا کر اور رشوتیں مانگ کر۔ جو کہ مجھے ہر گز منظور نہ تھا۔ میں نے اس بار بھی اپنے اصولوں کے تحت میری یہ خواہش بھی پوری نہ ہوئی۔ میں بہت فرسٹریٹ بھی ہوئی، روئی بھی، ٹوٹی بھی۔ لکھنا میرا جنون ہے۔ میں جانتی ہوں اسے میں نہیں چھوڑ سکتی۔جو جو لکھوں گی اپنے اس بلاگ پر پوسٹ بھی کرتی رہوں گی۔ لیکن۔ ساتھ ہی میں نے قسم کھا لی کہ مرنے سے پہلے میں اپنا سب کام ضائع کر جاؤں گی۔  میں نے کہا نا۔  میرا کام لازوال ہے۔ لکھنے والوں کے لئے مثال ہے۔  میں مر جاوں گی لیکن میرا کام نہیں مرے گا۔ یہ سدیوں بعد بھی زندہ ہوگا۔ اور یہ مجھے منظور نہیں۔ میرا وہ کام ، جس کو میری زندگی میں عزت نہیں ملی۔ میری زندگی میں کسی نے نہیں پڑھا۔ جن لوگوں نے مجھے میری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں دی۔ میں ان کے لئے اپنا کام کام چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ جس عزت اور شناخت پہ میرا حق تھا۔  ان لوگوں نے مجھے نہیں دی۔  توٹھیک ہے۔  میرے مرنے کے بعد میرے کام پہ بھی ان کا کوئی حق نہیں۔ جنہوں نے مجھے کوئی فائدہ نہین دیا۔  میں ان کو کوئی فائدہ نہیں دون گی۔
خیر۔  حاصل کلام یہ کہ انسان کی خواہشیں انسان کو زندہ تو زندہ رکھتی ہیں لیکن خود مرتی رہتی ہیں۔ کبھی حاصل نہیں ہوتیں۔ جب میں نے یہ دیکھا تو سوچا کہ کیوں ؟ انسان پھر کیوں خواہش کرتا ہے اس چیز کی جو اسکی تقدیر میں کبھی نہیں ہوتی؟
خواہش کیا ہے؟ ایک منصوبہ ، ایک پلان ، جو ہم اپنی زندگی کے لئے کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارا پلان کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔  ہماری خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ لیکن ، کیا کبھی انسان خوش نہیں ہوتا ؟ ہوتا ہے نا۔  ہمیں زندگی میں وہ نہیں ملتا جو ہم چاہتے ہیں۔ جس کو ہم اپنی خوشی سمجھتے ہیں۔ وہ ہمیں نہیں ملتی۔ لیکن ، اسکے باوجود ہم خوش بھی ہوتے ہیں۔ زندگی میں ہمیں اور بہت کچھ ملتا ہے جو ہمیں خوشی دیتا ہے۔  پھر کیا ہے؟ مسئلہ کہاں ہے؟ میں نے خاصی سوچ بچار کی۔  ہماری خوشی ، جو ہمیں چاہئیے وہ ہمیں نہیں ملتی۔  جو ہمیں نہیں چاہئیے۔ وہ ہمیں مل بھی جاتا ہے اور ہم خوش بھی ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ سب کیا ہے؟
تب میں نے جانا کہ اصل میں ہماری زندگی میں دو منصوبے ہوتے ہیں۔ ایک پلان وہ ہوتا ہے جو ہم اپنی زندگی کے لئے کرتے ہیں۔ اور ایک پلان وہ ہوتا ہے جو زندگی ہمارے لئے کر رہی ہوتی ہے۔ مگر ہوتا تو وہی ہے جو پلان
ہماری زندگی نے ہمارے لئے کر رکھا ہوتا ہے۔  تو پھر غم کیسا ؟ ہم نے جو زندگی سے حاصل کونے کا سوچ رکھا ہے۔  وہ تو صرف ہماری سوچ ہے۔  کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ اسلئے کچھ حاصل کر لینا چاہئیے۔  لیکن زندگی ، زندگی جانتی ہے کہ اس نے ہمارے لئے کیا کچھ سمیٹ کر رکھا ہے۔  جب دینے کا وقت آتا ہے تو دے دیتی ہے۔  پھر گلہ کیسا ؟ غم کیسا ؟ ہم خالی ہاتھ تو نہیں۔ جو زندگی دے رہی ہے۔ وہ ہی ہمارا حق ہے اور وہ ہی بہتر ہے۔ جیسے میرا گھر ، میرے بےمثال بچے۔ میری آزادی۔ میری زندگی میں ایسا کچھ نہیں جس پہ میں سمجھوتہ نہ کر سکوں۔ اور جو مجھے ملا ہے۔ ایسا تو لاکھوں میں کسی ایک کو نصیب ہوتا ہو گا۔  میری زندگی نے میرے لئے جو پلان کر رکھا ہے۔ وہ بہت خاص اور بہت نایاب ہے۔
انسان بہت ناشکرا ہے۔  جب میں اپنی خواہشوں کے حصول میں تھی اور ایک کے بعد ایک خواہش سے ہاتھ دھو رہی تھی۔ مجھ سے میرا سب کچھ چھنتا جا رہا تھا۔  تب میں سوچتی تھی کہ کیا ہے میری زندگی ؟ کچھ بھی نہیں دیا خدا نے مجھے۔  کوئی سکھ ، کوئی کامیابی نہیں۔ اگر میں اسی طرح مر گئی تو میں خدا سے پوچھوں گی ، سوال کروں گی۔  کیوں مجھے ایسی ناکام زندگی دی۔ محرومیوں بھری۔  کیوں مجھ سے میرا سب کچھ چھینا۔ میری ہر خوشی میری ہر خواہش چھینی ؟
لیکن۔ انسان اور زندگی کے پلان کا فرق جاننے کے بعد جب ایک دن میرے دل میں سوال آیا۔ کہ میری اپنی تو کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی۔  گو کہ اب بھی یہ امید زندہ رکھے ہوئے ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہو، کچھ ایسا ہو کہ میری کوئی تو خواہش پوری ہو جائے۔  لیکن پھر بھی۔ اگر میں آج ایسے مر جاتی ہوں۔ کچھ بھی حاصل کئے بنا ، تو مرتے دم میرے دل میں کیا ہوگا ؟ کتنے شکوے، کتنے سوال؟
تب میں نے خود کو جواب دیا۔ اگر ابھی ، یہاں بیٹھے ہوئے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرا وقت آگیا ہے۔  تو میری زبان پہ صرف ایک لفظ ہوگا۔  “ شکریہ” میں مرتے دم اپنے آگے کی زندگی کی طرف نہیں دیکھوں گی۔  کہ ابھی میں زندہ رہتی تو یہ یہ چیز حاصل کر لیتی، فلاں فلاں کام کر لیتی۔ بلکہ۔ میں اپنی گزری زندگی پہ نظر ڈالوں گئ۔ اللہ نے مجھے زندگی دی۔ پیدا کیا۔ مجھے زندگی میں بہت کچھ دیا۔ بہت سی خوشیاں ، بہت سے رشتے اور انکا خالص پیار۔ کبھی مجھے اپنی رحمت سائے سے محروم نہیں رکھا۔  میری صرف تین خواہشیں پوری نہیں ہوئیں۔ لیکن ، جو اللہ نے مجھے دیا۔ وہ تو بےحساب ہے ، میں کیا کیا گنوں ؟ کس کس نعمت کا شکریہ ادا کروں۔ اللہ نے مجھے جو اس زندگی میں عطا کیا ہے، اس کو گننے کے لئے تو مجھے ایک اور زندگی درکار ہوگی۔ کیا میں یہ سب بھلا سکتی ہوں ؟ نظرانداز کر سکتی ہوں ؟ صرف اپنی تین خواہشوں کے بدلے؟
خواہش صرف انسان کو زندہ رکھنے کا ایک سبب ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں اور اس کو قبول کر لیں تو ہم اتنے ناخوش اور ناشکرے نہ ہوں۔ 

No comments:

Post a Comment