Tuesday 10 October 2017

بلاگ 4

 پیسہ،خوشی یا خرابی؟ 
پیسےکے لحاظ سے یہ دنیا دو طرح کے لوگوں میں بٹی ہوئی ہے۔  ایک وہ ، جن کے پاس پیسہ نہیں اور وہ پیسے کے حصول کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسرے وہ، جن کے پاس پیسہ ہے پھر بھی وہ خوش نہیں۔ ہر وقت وہ یہی شکایت کرتے پھرتے ہیں کہ پیسے سے آپ خوشی نہیں خرید سکتے۔ بعض مالدار اور بےمایا یہ بھی کہتے ہیں کہ پیسہ برائی کی جڑ ہے۔
کیا پیسے سے آپ خوشی نہیں خرید سکتے؟
کیا پیسہ واقعی برائی کی جڑ ہے؟
میں نے زندگی میں بہت بار ایسی باتیں سنی ہیں۔ لیکن کبھی ان سے پوری طرح سے متفق نہیں ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں کبھی بھی کسی ایسی بات سے متفق نہیں جس میں کسی ایک چیز کو مورد الزام ٹھہرا دیا جائے۔ میں نے ہمیشہ یہی مانا ہے کہ برائی انسان کے طریقے میں ہوتی ہے۔ کسی چیز میں نہیں۔ خیر
ہم پیسے کو اچھا مانیں یا برا ، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ جس انسان کے پاس پیسہ نہیں ، اس کی زندگی کا محور ہی پیسہ ہے۔ وہ پڑھتا ہے ، پیسے کے لیے، کام کرتا ہے ، پیسے کے لئے، سوچتا ہے تو پیسے کے بارے میں۔ کہنے کوتو پیسہ بڑی خراب چیز ہے، مجھے پیسے کا لالچ نہیں ، مجھے پیسہ اچھا نہیں لگتا ، مجھے پیسے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس دنیا پہ انسان کی زندگی ہی پیسے کے مرہون منت ہے۔ آپ جو بھی کھا رہے ہو، جو بھی لگا رہے ہو، جہاں بھی اور جیسے بھی رہ رہے ہو ، آپ نہ سہی کوئی اور سہی ، پیسہ تو ادا کر رہا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو زندہ ہو مگر اس کے پاس کوئی بھی ایسی چیز ہرگز نہ ہو جو پیسے سے نہ آتی ہو۔ پیسہ انسان کی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ باقی رہ گیا سوال پیسے اور خوشی کے درمیان ضد کا۔ تو بات یہ ہے کہ میں نے کبھی پیسے کو برائی کی جڑ مانا اور نہ کبھی سمجھا کہ پیسے والے خوش نہیں ہوتے۔
پہلی چیز ، جس انسان کے پاس پیسہ نہیں وہ واقعی پوری کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح پیسہ کما لے۔ ہاں ، ناجائز طریقے سے کمایا پیسہ آسانی کم اور پریشانی زیادہ لاتا ہے۔ لیکن اس بحث کو چھیڑے بنا، صرف جائز عمل کی بات کرتےہیں۔ انسان پیسے کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ چاہتا ہے کہ اتنا پیسہ کما لے کہ روزی روٹی کی فکر و فاقے سے آزاد ہو جائے۔ ایک انسان ، جو گن گن کے پیسہ خرچ کرتا ہے،جو اپنی ضروریات زندگی کی چیزیں بھی پوری نہیں کر پاتا ، جس کی خواہشوں کی رکاوٹ بھی پیسہ ہے۔ تو کیا پیسہ آ جانے سے اس کی زندگی آسان نہیں ہو جائے گی؟ کیا ایک ایسا انسان جس کے پاس پہننے کو کپڑا نہیں اور پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا ، اس کی زندگی برابر ہے اس کے جس کے کتے بھی ولایتی بسکٹ کھاتے ہیں ؟ فرق تو ہے ناں۔ یہ تو ماننا پڑے گا۔ پھر مسئلہ کہاں ہر ہے؟ کیوں یہ شکایت کی جاتی ہے کہ پیسہ خوشی نہیں دیتا اور پیسہ برائی کی جڑ ہے؟
مسئلہ انسان کی سوچ میں ہے۔ آپ غریب ہو ، آپکے پاس کھانے کو روٹی نہیں ، پہننے کو کپڑا نہیں۔ پیسہ آجائے گا تو آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ یہ درست بات ہے۔ پیسے سے آپ من چاہا کھانا کھا سکتے ہو، جو چاہے پہن سکتے ہو، جہاں چاہے اور جیسے چاہے رہ سکتے ہو۔ لیکن ، یہ سوچنا کہ تب مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ یہ غلط ہے۔ پریشانی، مسئلے ، مسائل، مشکلات، یہ سب انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ انسان کی زندگی ہے۔ ایک کے بعد ایک مشکل ، ایک کے بعد ایک چیلنج، زندگی اسی کا تو نام ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان زندہ ہو اور اسے کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔ زندگی میں مشکلات ہمیشہ رہتی ہیں۔بس ان کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ اس لئے یہ سوچنا کہ میں جب روزی روٹی کی فکر سے آزاد ہو جاؤں گا تو میں ہمیشہ خوش رہوں گا۔  یہ بالکل غلط ہے۔ پیسہ آپ کی زندگی کو آسان کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن آپ کی زندگی سے مشکلات کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ یہ بھی سچ ہے اور یہی زندگی ہے۔  جب انسان کے پاس پیسہ نہیں ہوتا۔ اسکی زندگی کی مشکل اور پریشانی اسکی غریبی ہوتی ہے، اس کی کسمپرسی۔ اور جب اس کے پاس پیسہ آجاتا ہے تو اس کی زندگی کی مشکلات الگ شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ انسان کویہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئیے اور اس کے لئے تیار رہنا چاہئیے۔ جیسا کہ میں نے کہا ، کہ خرابی کسی چیز میں نہیں ، انسان کے رویے میں ہوتی ہے۔ایک  انسان جب پیسے کو اپنی تمام مشکلوں کا حل سمجھ لیتا ہے۔ تب پیسہ آجانے کے بعد اسے ایسے چیلنجز درپیش آتے ہیں جن کو وہ پیسے سے حل نہیں کر پاتا۔ تب وہ اپنی  سوچ بدلنے کی بجائے یہ رائے قائم کر لیتا ہے کہ پیسہ آپ کو خوشی نہیں دے سکتا۔ اگر ایسے سوچا جائے تو دنیا کی کوئی بھی چیز آپ کو خوشی نہیں دےسکتی۔ خوشی کا دارومدار مادی اشیاء پہ نہیں آپ کے رویے اور آپ کی سوچ پہ منحصر ہے۔
اب آتے ہیں برائی کی جڑ کی طرف ، کہ پیسہ برائی کی جڑ ہے۔ پیسہ برائی کی جڑ کی نہیں ، انسان کی اپنی حرص ، اسکا طمع برائی جڑ ہے۔ یا انسان کا لالچ اسے مصیبت میں ڈالتا ہے۔  جو لوگ پیسے کے حصول کی کوشش میں غلط راستہ اپنا لیتے ہیں۔ ان کی خواہشیں بےلگام ہوتی ہیں۔ اپنی ہی خواہش کے غلام، جو صرف اپنی خواہش کا حصول چاہتے ہیں۔ چاہے جیسے بھی کر کے۔ تو ظاہر سی بات ہے۔ جب برائ کا راستہ چنو گے تو برائی ہی پاؤ گے۔ اس دنیا میں اور کسی برائی کا کوئی خمیازہ ہو یا نہ ہو۔  لیکن دو چیزیں میں نے دیکھی ہیں ہو کر رہتی ہیں۔ ایک،ناجائز راستے سے کمائی دولت، دوسری  ، کسی کے لئے کھودا گڑھا۔ شاید کسی کی چیز چرانے والے کو اس زندگی میں کوئی بھرپائی نہ کرنی پڑے ، جھوٹ بولنے والے یا فساد ڈالنے والے کو اس کے کئے کی سزا نہ ملے۔ لیکن ، ناجائز طریقے سے دولت کمانے کی سزا مل کر رہتی ہے۔ اور اس میں بھی اکثر میں نے دیکھا ہے کہ یہ سزا انسان کو اس کی اولاد کے ذریعے ملتی ہے۔ شائد اسلئے کہ انسان مال اکٹھا کرتا ہی اولاد کے لئے ہے۔ بےاولاد شخص کو مال اکٹھا کرنے کی فکر ویسے بھی نہیں ہوتی ( عموماً)۔ اسی لئے یا تو حرام مال کمانے والے کی اولاد مرنے لگتی ہے ، یاپھر بیمار ، پاگل، آوارہ ، نافرمان اور جرائم پیشہ ہو جاتی ہے۔ اور کچھ تو دونوں طرح کی سزائیں بھگتتے ہیں۔  اولاد کی طرف سے وہ انسان صدموں اور پریشانیوں سے ہی دوچار ہوتا ہے۔  کوئی اولاد کا سکھ نہیں نصیب ہوتا اسے۔ میں نے کوئی ایسا بندہ نہیں دیکھا جس نے حرام مال کمایا اور اسے اولاد کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں ملی۔ شاید ایسے لوگ بھی ہوں دنیا میں۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ خوش ہیں اور انھوں نے کچھ بھگتا نہیں۔ بےشک بھگتا ہے اور بھگت رہے ہیں۔حرام مال کبھی بھی انسان کو ہضم نہیں ہوتا۔  یہ میری رائے نہیں دنیا کی حقیقت ہے۔
پیسے سے انسان کی گروہ بندی کی جائے تو پیسے کو بدنام کرنے والی انسانوں کی ایک اور قسم بھی ہے۔ وہ ، جنہوں جائز طریقے سے مال اکٹھا کیا۔ جنہوں نے تعلیم حاصل کی، محنت کی ، اپنے کام سے یا اپنے ہنر سے پیسہ کمایا۔ پھر اس کے بعد ہوا کیا ؟ جب ان کے پاس مال آ گیا تو دنیا انکو سجدہ کرنے لگی۔ ان میں گھمنڈ آ گیا۔ انسان کو انسان سمجھنا چھوڑ دیا۔ سوچا کہ میں جو چاہے کروں ، ساری دنیا میرے قدموں تلے ہے۔ میں اپنے پیسے سے اس دنیا کو خرید سکتا ہوں۔ پھر مجھے کس چیز کا ڈر؟ یوں ، پیسہ تو جائز راستے سے کمایا لیکن اسکا استعمال غلط طریقے سے، اور غلط کاموں میں کرنے لگا۔ ایسے انسان سے متاثرہ لوگ یہ رائے بنا لیتے ہیں کہ پیسہ برائی کی جڑ ہے۔  یعنی، اگر اس انسان کے پاس پیسہ نہیں ہوتا تو یہ اتنا برا نہ ہوتا۔ میں اس رائے سے بھی متفق نہیں۔ اس انسان کی برائی کی وجہ بھی اس کا پیسہ نہیں خود اس کا رویہ اور اس کی سوچ ہے۔ اگر وہ پیسے کا غلط استعمال کر رہا ہے تو اس کا طریقہ غلط ہے۔ برائی اس انسان میں ہے، پیسے میں نہیں۔
الغرض۔ میرا ہمیشہ یہیں ماننا رہا ہے کہ پیسہ انسان کی ضرورت ہے اور خرابی انسان کی اپنی سوچ اور اس کے رویے میں ہے۔ پیسے میں نہیں۔ 

No comments:

Post a Comment