Saturday 4 November 2017

رنگ گورا کرنے کی کریم۔ بلاگ 6

رنگ گورا کرنے کی کریم۔ 
یہ بھی ایک بڑی بحث اور خیر سے خاصا سیریس اشو بنا ہوا ہے۔ رنگ کو لے کر میں جن ادوار سے گزری ہوں۔ وہ میں بیان کرتی ہوں۔ کوئی یقین کرے یا نہ ، لیکن میں نے کبھی بھی اس چیز کو محسوس نہیں کیا تھا۔ ایک اصطلاح  استعمال کی جاتی ہے “ھیومن بی ہیوئر’ “  میرے خیال سے یہ بھی ایک ھیومن بیھیوئر ہے کہ انسان جس دنیا میں رہتا ہے سمجھتا ہے کہ ہر کسی کی دنیا یہی ہے۔ ایک فلم سٹار کا بچہ سمجھتا ہے کہ ہر کسی کی ماں یا باپ جب عوام میں نکلتے ہیں تو لوگ اس کو گھیر لیتے ہیں اٹو گراف کےلئے۔  ایک غریب کا بچہ سمجھتا ہے کہ دنیا کا ہر بچہ اس کی طرح روکھی سوکھی کھا کر زمین پہ سوتا ہے۔ جیسا ماحول ، جیسی زندگی انکو ملی ہوتی ہے سمجھتے ہیں ہر کسی کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ ہر کوئی اسی سے گزرتا ہے۔ میں جس گھر میں پیدا ہوئی۔ میرے گھر کا ہر فرد گورے رنگ کا تھا۔ جبکہ محلے میں مکس طرح کے لوگ بستے تھے۔ کچھ ہمارے جتنے گورے، کچھ ہم سے کم، کچھ زیادہ ہی سانولے۔ لیکن، میں چونکہ ہوش سنبھالتے ہی یہ سب دیکھ رہی تھی تو میں نے کبھی اس چیز کو محسوس کیا نہ اس بارے میں سوچا۔ حتی کہ ایسا ہوتا تھا کہ کبھی کہیں باہر جائیں تو لوگ کہتے تھے۔ کتنی گوری ہے۔ مجھے انکا یہ تبصرہ سمجھ نہیں آتا تھا۔ کیونکہ میرے لئے یہ کوئی نایاب چیز نہیں تھی۔ میرا سارا گھر گورا تھا اور محلے کے بھی کچھ لوگ۔  نہ ہی مجھے وہ باہر کے لوگ دیکھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ کتنے سانولے ہیں۔ کیونکہ سانولے بھی میں شروع سے دیکھ رہی تھی۔ تو میرے لئے یہ کوئی اچنبھے یا سوچنے کی بات نہیں تھی کہ کون گورا ہے کون کالا۔ میں نے تو کبھی اس زاویے سے سوچا ہی نہیں تھا۔ اور لوگوں کا ایسا تبصرہ سن کر حیرت مین پڑ جاتی تھی کہ “یہ کیا بات ہوئی، سبھی گورے ہوتے ہیں۔ “  اور اگر گورے نہیں تو بھی کیا۔ جیسے ہر انسان کی اپنی اپنی شکل ہے ویسے ہی اپنا اپنا رنگ۔ یہی میری سوچ تھی۔
خیر، جب تک میں سکول نہیں گئی ، تب تک تو یہ کوئی ایسی خاص بات نہ تھی جس سے میں سمجھتی کہ میری زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ یہاں میں یہ بھی بتا دوں کہ میں سات سال کی تھی جب باقاعدہ سکول جانا شروع کیا۔  میرے ابو مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے اسلئے انھوں نے سات سال کی عمر تک مجھے سکول نہیں بھیجا کہ بعد میں اسکی عمر کم ہوگی اسکی اور پڑھائی سخت ، اسلئے دوسروں کے بچوں کی طرح بار بار فیل ہونے سے بہتر ہے کہ ابھی اسکو گھر میں بٹھا کر رکھو۔ ، خیر ، یہ انکا نظریہ تھا اور انکا فیصلہ۔ اس پہ بحث نہیں کرتے۔ تو ، نقطہ یہ ہے کہ میں سات سال کی تھی جب سکول جانا شروع کیا اور اس سے پہلے میری بچپن کی باتوں اور یادوں کو لے کر میرا حافظہ خاصا مضبوط ہے۔ بعض باتیں تو اتنے بچپن کی یاد ہین کہ مجھے خود یقین نہیں آتا کہ کیسے مجھے وہ سب یاد ہے۔ خیر ، تو ہوا یہ کہ جب میں سکول گئی۔ وہاں لڑکیاں کہہ لیں کہ سبھی سانولی تھیں۔ یہاں میں یہ بتاتی چلوں کہ جو میرا شہر تھا ، میرا ابائی گھر ، چونکہ واپڈہ کالونی قریب تھی توچونکہ واپڈہ کے لوگ تقریبا سب ہی پنجابی اور پاکستان کے دوسرے شہروں سے تھے۔ تو وہ لوگ ظاہر ہے ہم کشمیریوں جتنے گورے نہیں تھے۔ اور جس جگہ پہ ہم رہتے تھے وہ بھی کشمیر پاکستان کا بارڈر تھا تو اس جگہ کی جغرافیائی حالت اور وہاں کے لوگوں کے رنگ روپ بھی پنجابیوں جیسے تھے۔ اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن کی تفصیل میں جانا ابھی ضروری نہیں۔ نقطہ یہ ہے کہ سانولوں کی اکثیریت تھی اور انکی دنیا کے مطابق ہر کوئی سانولا ہی ہوتا ہے۔ صرف ہم ہی کوئی آڈ ون آؤٹ لگتے تھے انھیں اور ان کو تعجب ہوتا تھا کہ یہ ہم میں سے ہو کر بھی ہم جیسے کیوں نہیں۔  اور کیسے نہیں ؟ سکول کا یہ کہہ رہی تھی کہ سکول کی استانیاں اور طلبہ و طالبات تقریبا ننانوے فیصد سانولے تھے۔ زیادہ تر واپڈہ کالونی کے پنجابی ، اور جو لوکل تھے وہ بھی۔ کچھ گورے بھی تھے لیکن میری کلاس میں میں ہی گوری تھی تو جو مجھ پہ گزری وہی بیان کروں گی۔ جب سکول کی شروعات ہوئی۔ مجھ سے سوال ہونے لگا۔  “ تم کون سی کریم لگاتی ہو؟ “ 
مجھے اس سوال کے پیچھے مقصد اور محرک سمجھ نہیں آتا تھا۔ میں یہی سمجھی کہ ٹی وی پہ اشتہار چلتے ہیں۔ موئسچرائزرز کے ، کریموں کے۔ میرے مطابق یہ چیزیں ایک اکسیسری تھیں۔ ایک لگژری کہہ لیں۔ کہ آپ بس اپنا خیال رکھنے کے لئے یہ چیزیں لگاتے ہیں۔ صرف اسلئے کیونکہ آپ اپنی فکر کرتے ہیں خود سے پیار کرتے ہیں وغیرہ۔ کریم لگانے کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے جیسا کہ کھردری جلد ، کالا رنگ یا ایسا کچھ۔ ان چیزوں کی مجھے نہ خبر تھی نہ ایسی کوئی سوچ۔ تو ، اس دور میں فئیر اینڈ لولی بڑی چیز تھی میری دنیا کے مطابق۔ شروع میں تو میں نے کہا کہ میں کوئی کریم نہیں لگاتی۔ اس سے جو لوگوں کا ، یعنی ان بچیوں کا ردعمل ہو ، جیسے وہ منہ بنائیں۔ مجھے لگے کہ یہ مجھے غریب سمجھ رہی ہیں۔ تو میں نے جھوٹ بولنا شروع کیا کہ فیئر اینڈ لولی لگاتی ہوں۔ کچھ عرصہ یہ جھوٹ بولا۔ مگر مجھے معلوم ہوا کہ یہ جھوٹ بھی چلنے والا نہیں۔ اوپر سے عادت بھی نہیں تھی جھوٹ بولنے کی تو عجیب سا محسوس ہو جھوٹ بولتے ہوئے۔ اور میں اتنی سمجھدار ہو گئی کہ اگلے کو سیدھا سا جواب دے سکوں۔ تو میں نے جواب دینا شروع کر دیا کہ نہیں، میں کوئی کریم نہیں لگاتی۔ اتنے عرصے میں وہ لڑکیاں بھی ہوشیار ہو گئیں۔ وہ بھی پھر جواب میں چپ رہ کر صرف برے تاثرات دینے کی بجائے کھل کر اظہار کریں۔ “ اگر تم کوئی کریم نہیں لگاتی تو اتنی گوری کیسے ہو؟ تمہارا رنگ اتنا گورا کیسے ہے؟ جھوٹ بولتی ہے۔ بتاتی نہیں کہ کونسی کریم لگاتی ہے “
ایسے ردعمل جب میرے سامنے آئے تو میں خاصی حیران ہوئی اور الجھی ، پہلی بات ، مجھے حیرت ہوئی کہ رنگ کو لے کر انکو کیا پریشانی اور احساس کمتری ہے ؟ جیسا کہ میں نے کہا، میرے مطابق جیسے ہر کسی کی اپنی اپنی شکل ہے ویسے ہی اپنا اپنا رنگ۔ جب کوئی بندہ کسی کو دیکھ کر یہ نہیں سوچتا کہ یہ اس کی شکل میرے جیسی کیوں نہیں یا میری اس کے جیسی کیوں نہیں، ایسے ہی رنگ کے بارے میں بھی نہیں سوچنا بنتا۔ دوسرا سوال جو ذہںن میں آئے کہ ، کیا کوئی ایسی کریم بھی ہوتی ہے جس سے رنگ گورا ہو جاتا ہو؟ یعنی، یہ مسئلہ اتنا سیریس تھا اور اس کثرت سے کہ لوگ اس کو ایک بیماری کی  طرح لے کر اس کا علاج بھی کرنا چاہ رہے تھے۔ یعنی، یہ کسی ایک آدھ بندے کی سوچ یا خواہش نہیں تھی۔ اور بھی بہت تھے۔ تو یہ نہایت تعجب کی بات تھی میرے لئے۔  تیسرا سوال۔ اگر یہ گوری نہیں ہیں تو گوری ہونا کیوں چاہتی ہیں ؟ کیوں یہ اپنے رنگ سے خوش نہیں ؟ اور میں ان کے مجھ سے سوال پہ سوچتی کہ ،یہ ایسا کیوں سوچتی ہیں میرے بارے میں کہ میں کریم لگاتی ہوں؟ 
یہ سوچیں ، اور الجھنیں۔ بہت متاثر ہوئی میری زندگی اس سوال سے کہ کون سی کریم ؟ تب تو چلو جو تھا سو تھا۔ میں اج بھی پیچھے اس وقت کو دیکھتی ہوں تو مجھے سچ بات ہے، بےحد افسوس ہوتا ہے۔ ان لڑکیوں کی، ان بچیوں کئ عمریں ہی کیا تھیں ؟ پانچ سال ، چھ سال ، سات سال ، اور وہ اپنے رنگ کو لے کر احساس کمتری میں مبتلا کے ساتھ اس کو گورا کرنے کی فکر میں بھی تھیں۔ خاصا شرمناک اور افسوس ناک ہے یہ۔ ان بچیوں کو یہ سوچ ، یہ کمتری کس نے دی ؟ 
خیر۔ اس سوال نے میٹرک تک میرا پیچھا کیا کہ تم کون سی کریم لگاتی ہو  ۔ اور نہ کی صورت میں۔ تو تمہارا رنگ اتنا گورا کیسے ہے؟ آٹھویں تک پہنچتے پہنچتے ایک اور سوال بھی شامل ہو گیا تھا۔ “ تمہارے بال کیوں نہیں ؟ تمہارے منہ پہ کوئی بال نہیں ، تمہارے بازو پہ کوئی بال نہیں ، کیسے ، کیا لگاتی ہو؟ کیسے صاف کرتی ہو؟ 
یہ ایک اور ایسا سوال تھا جس نے میرے سامنے ایک اور بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا تھا۔ کیا لڑکیوں کے منہ ، بازو پہ بال ہوتے ہیں ؟ بال تو لڑکوں کے جسم پہ ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کے تھوڑا۔ میں نے اپنی ماں دیکھی تھی ، اپنی دادی دیکھی تھی ، خود کو دیکھا تھا ، اپنی چھوٹی بہن اور ٹی وی پہ لڑکیاں۔ سب ہی صاف ستھری تھیں۔ کسی کے کوئی بال نہیں دیکھے تھے۔ رہ گئی اہل محلہ ، سہیلیاں۔ ان کو کبھی اس نظر سے یا اتنے غور سے دیکھا ہئ نہیں تھا۔  اگر کچھ دیکھا بھی تو توجہ نہیں دی، وہی میری سوچ کہ ہر کسی کی اپنی اپنی اشکل ہے، اپنے پانے بال، کیا فرق پڑتا ہے؟ ویسے بھی جس عمر کے حصے میں میں تھی۔ اس عمر میں بچیوں کے کہاں بال ہوتے ہیں۔ دوسری لڑکیاں شاید کچھ زیادہ ہی گہرا مشاہدہ کرتی تھیں اور میں کچھ زیادہ مست ملنگ تھی۔ 
خیر ، ابھی ہمارا موضوع ہے گورا رنگ۔ تو میٹرک تک اس سوال نے پیچھا کیا۔ اور بار بار مجھ سے یہ سوال اسی لئے ہوتا رہا کہ پہلی کلاس سے میٹرک تک کوئی پانچ سکول تو میں نے بدلے ہی تھے۔ ہر دو سال بعد میرا سکول بدلا ہوتا تھا۔ دو سال مجھے لڑکیوں کو جواب دے کر خاموش کروانے میں لگ جاتے تھے اور جب تک وہ اس چیز کو قبول کرتیں کہ میں قدرتی طور پر ایسی ہوں، سکول بدل جاتا اور سوال پھر سے کھڑا ہوا جاتا۔ میٹرک کے بعد کالج پھر میں نے میرپور سے کیا تو میرپور سب کشمیری پلس برٹش۔ اکثیریت گورے رنگ والوں کی۔ ان میں سانولوں کی کمی تھی اور ان سانولوں کو معلوم تھا کہ یہ لوگ سب ہیں ہی ایسے۔ کریمیں نہیں لگاتے۔ اسلئے میری اس سوال سے جان تو چھوٹ گئی۔ مگر اتنا مجھے پتا چل گیا کہ لوگوں کو اپنے سانولے پن سے شکایت ہے اور وہ اس کو دور بھی کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے رنگ نہ ہوا ، کوئی بیماری ہو گئی۔ ٹی وی پہ چلتے اشتہار۔ خیر۔ چلتے تو بچپن میں بھی تھے اور سنتی تھی کہ رنگ گورا کرے۔ لیکن جو ماڈل دکھاتے تھے وہ پہلے سے گوری ہوتی تھی۔ ڈراموں میں دیکھی ہوئی اور وہی رنگ روپ لے کر کریم اٹھا کر بول دیتی تھی کہ یہ کریم ہے میرے گورے رنگ کا راز۔ تو کبھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ وہ ثابت کیا کرنا چاہتی ہے۔  میرے لئے تو وہ ہمیشہ ایک جیسی تھی۔  مگر اب بڑے ہونے کے بعد مجھے پتا چل چکا تھا کہ یہ تو خیر ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ کہ کالے ہیں اور گورے کیسے ہوں ؟  تب میں نے مان لیا کہ اچھا جی ،، لوگ کالے کو پسند نہیں کرتے ، لوگ کالے رنگ سے خوش نہیں ، اسکو بدصورتی سمجھتے ہیں اور اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ پھر کچھ لوگوں کی سوچ سنی کہ زیادہ کالا نہ ہو بندہ ، گندمی رنگ اچھا ہوتا ہے۔  کالا نہ ہو ، سانولا اچھا ہے۔  سانوالا خوبصورت ہے۔
تب میں نے شکر کیا اور اسکی حمایت بھی کہ خدارا ، سانولے تو خوش ہو جاؤ۔  آپ بھی خوبصورت ہو۔ سانولا ہونا بدصورتی نہیں۔ مجھے واقعی میں افسوس ہوتا تھا لوگوں کی یہ پریشانی دیکھ کر اور سوچ سن کر۔ اسی لئے میں نے اسکو بہت سپورٹ کیا۔ اور لوگوں کو بھی سپورٹ کرتے دیکھا۔ تسلی بھی ہوئی کہ شکر ہے لوگ اپنے رنگ کو قبول کرنے لگے ہیں۔ وہ اپنی چمڑی پہ خوش ہیں اور جو خود گورے ہیں مگر سانولوں کو سپورٹ کر رہے ہیں وہ بھی شکر ہے کہ اس رنگ کو عزت دینے لگے ہیں۔ بہت عرصہ تک ایسی دنیا میں رہی میں۔ اور اس دوران پھر میں نے یہ بھی سنا کہ گورا رنگ خوبصورتی نہیں۔ اگر کوئی گورا ہے تو مطلب یہ تھوڑا ہے کہ خوبصورت بھی ہے۔ اس نظریے کو میں نے سپورٹ کرنے لائق اسلئے نہیں سمجھا کہ یہ انگور کھٹے والی بات تھی۔ وہی لوگ بول رہے تھے جو اپنی تمام کوششیں کرکے ناکام ہو چکے تھے۔ مجھے ان کی اس رائے میں صرف ان کی ہار اور ان کی جلن دکھائی دیتی تھی۔ اسلئے اس کو قابل عزت نہ جانا۔ اور میں بڑی حد تک خوش اور مطمئن بھی تھی کہ میری دنیا میں بہت سے ایسے لوگ آ چکے تھے جو سانولے تھے اور ان کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بیشتر ایسے بھی تھے جو سانولے تھے۔ سانولے کو بدصورتی بھی سمجھتے تھے۔ لیکن چپ تھے کہ کیا کر سکتے ہیں۔ کالے ہیں تو ہیں۔ ان کی یہ بات سن کر دکھ ہوتا تھا۔ کہ بس ایک رنگ۔ انسان کی اپنی چمڑی تک انسان کی دشمن ہے۔ ایک انسان اتنا بے بس ہے کہ اس کی چمڑی کالی ہے۔ وہ محروم ہے گورے رنگ سے۔ یعنی ، یہ ان کی زندگی کی محرومی تھی جسے وہ قبول کر کے اس محرومی کے ساتھ جی رہے تھے۔ کسی کی محرومی دیکھ کر دکھ تو ہوتا ہے۔  مجھے بھی ہوتا تھا۔ اور ایسے موقعوں پہ تو مجھے اپنا آپ مجرم محسوس ہوتا تھا۔ کہ مجھے دیکھ کر ان لوگوں کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔  مجھے یاد ہے۔  ایک بار میں گورنمنٹ کالج گئی۔  میری کچھ سہیلیاں تھیں وہاں۔ وہاں ایک لڑکی میری سہیلی کو مہندی لگا رہی تھی۔ وہ لگوا چکی تو میں نے اس لڑکی سے کہا کہ مجھے بھی الٹے ہاتھ پہ لگاؤ۔ یعنی ہاتھ کی پشت پہ۔  کیونکہ پشت والے ڈیزائن زیادہ خوبصورت تھے اور دکھتے بھی تھے۔ وہ لڑکی میرے ہاتھ کی پشت پہ مہندی لگانے لگی۔ ایک اور لڑکی وہاں آن بیٹھی۔ بولی۔ “ کتنا اچھا ڈیزائن ہے۔ “  مہندی والی لڑکی بولئ۔  “ اسکے بعد تمہیں بھی لگا دوں ؟ “
وہ لڑکی بولی۔  “ یہ ڈیزائن تو ہاتھ کی پشت والا ہے اور میرے ہاتھ کی پشت ۔۔۔ “ اس نے اپنے ہاتھ کی سانولی پشت دیکھی اور محرومی سے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ مجھے آج بھی وہ وقت ، وہ لمحہ یاد ہے۔ مجھے انتہائی دکھ اور بےطرح شرم آئی۔  میرا دل چاہا کہ میں اپنا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ سے چھین لوں۔ چھپا لوں اپنے ہاتھ کو ، اپنے رنگ کو ، تاکہ ایسے کسی کو محرومی نہ ہو۔
کبھی کبھی میں یہ بھی سوچتی تھی کہ میں کوئی ایسا پاوڈر یا کریم منہ پہ لگا لوں۔ جس سے میں سانولی دکھوں۔ تاکہ لوگ مجھ سے گورے رنگ کا سوال نہ کریں اور نہ لوگ میرا رنگ دیکھ کر خود احساس محرومی میں مبتلا ہوں۔ لیکن میں کبھی ایسا کر نہیں سکی۔ سب سے بڑی اور پہلی وجہ ہی یہ تھی کہ سب لوگ جانتے تھے ، اور روز دیکھتے تھے مجھے۔ انھیں معلوم تھا کہ میں گوری ہوں۔ پھر ایسے رنگ بدل کر جاتی تو سب سوال اٹھاتے اور بےعزتی بھی کرتے۔ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور کہتے کہ یہ کیا کیا ہوا ہے؟
تو ، ایسی ہی زندگی تھی۔ مگر ، پچھلے کچھ سالوں سے میں عجیب رویہ دیکھ رہی ہوں۔ پہلے تو یہ بھی سنا کرتے تھے کہ انگریز رنگ کو لے کر ریسسٹ ہیں یا ریسسٹ تھے۔ کالے رنگ والے سے نفرت کرتے تھے۔ اس کے ساتھ غلط سلوک کرتے تھے۔ چند سال پیچھے چلے جاؤ تو حبشیوں کو صرف اسلئے غلام بنایا گیا اور ان پہ ظلم کیا گیا اور انکو کوئی مقام ، کوئی عزت یا سہولت نہیں دی گئی کیونکہ وہ کالے تھے۔ رہ گئے انگریز، تو جو ایک انگریز کا سراپہ وہ جنت کی حور کا سراپہ اور وہ پریوں کا سراپہ۔  بچپن میں اگر پریوں کی کہانیاں پڑھیں تو بھی یہی۔ شہزادیوں اور شہزادوں کی کہانیاں سنی تو بھی یہی۔  اور مولوی صاحب نے جنت کی حور کا نقشہ کھینچا تو بھی یہی۔ “ سفید گورا رنگ ، نیلی نیلی آنکھیں ( بسا اوقات ہری ہری آنکھیں ) سنہرے بال۔ “
یعنی۔ صرف گورے خود ہی نہیں۔ ہمارے یہاں بھی خوبصورتی کا پیکر گورے ہی رہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ گوروں کو کالوں سے نفرت ہے۔ ہمیں بھی وہ کالوں کی لائن میں کھڑا کرتے ہین۔ ان کی اس سوچ اور رویے پہ ( جو کسی دور میں رہا ہوگا ) غصہ آتا تھا۔ نفرت محسوس ہوتی تھی۔  افسوس ہوتا تھا۔  اور ہمیشہ لوگوں کو اس سوچ اور رویے کی مذمت کرتے سنا۔ یہ کہہ کر کہ۔ “ یہ تعصب ہے۔  چاہے کوئی کالا ہے یا گورا۔  انسان انسان ہے۔ اسلئے یہ رنگ کی بنیاد پر گروہ بندی اور تعصب بند کرو۔ “  اس آواز کی حمایت کی اور مانا کہ بالکل درست بات کہی جا رہی ہے۔  لیکن ،  پچھلے کچھ عرصہ سے عجیب رویہ دیکھ رہی ہوں۔ خاص کر انڈیا اور پاکستان کے لوگوں میں۔ ایک ایکٹریس یا ایکٹر رنگ گورا کرنے کی کریم کا اشتہار کر رہا ہے۔  تو اسکو مذمت کرنا شروع کر دو۔” تم کیوں اس سوچ کی حمایت کرتے ہو اور اس کا پرچار کرتے ہو کہ رنگ گورا کیجئے “ اور اگر کوئی ایکٹر یا ایکٹریس کسی فیرنیس کریم کے اشتہار کی پیشکش کو ٹھکرا دے۔  کہے۔ “ نہیں۔ میں رنگ گورا کرنے والی کریم کی مشہوری نہیں کروں گی۔ لوگوں سے نہیں کہوں گی کہ اسکو خریدو۔  “ تو اس ایکٹر یا ایکٹریس کی اتنی واہ وائی ، اتنی پذیرائی کہ مانو اس نے مدر ٹریسا جیسا کوئی کام کر لیا ہے۔ ایک ایکٹر ، ایکٹریس نے رنگ گورا کرنے والی کریم کا اشتہار کیا کر دیا۔  اسکو گالیاں ، لعن طعن ، مذمت۔ اسکی ماں بہن ایک۔  “ تم کیوں ایسی کریموں کا اشتہار کرتی / کرتے ہو؟ “ تم کیوں ایسی کسی پروڈکٹ کو اینڈورس کرتے ہو ؟ “
قابل نفرت ، جینا حرام کر دو اسکا۔ خاص کر سوشل میڈیا کے مجاھد۔  فیس بک، ٹویٹر ، یوٹیوب ، جہاں دیکھو مورچہ سنبھال کے بیٹھے ہوئے اور لفظوں کی یلغار کر رہے۔  اور جس نے ایسا اشتہار کرنے سے منع کیا۔  اسکو پیڈسٹل پہ بٹھا کر انکی آرتی اتاری جا رہی۔ جئے جئے کار ہو رہی۔  گویا “ ساکشات “ دیوی پرکٹ ہو گئی ہو اس ایکٹر / ایکٹریس کے روپ میں۔
میرے لئے یہ رویہ بھی انتہائی قابل مذمت ہے۔  جب تک کالے رنگ کی مذمت کرنے والے کی مخالفت کی گئی۔  تب تک تو ٹھیک۔ لیکن۔ گورے رنگ کی مذمت کرنا کیسے کوئی درست رویہ ہو سکتا ہے ؟ اگر گورے نے کالے سے نفرت کی اور وہ تعصب تھا تو جو اب گورے رنگ سے نفرت اور اس کی مذمت کی جا رہی ہے یہ تعصب نہیں ؟
یہاں پہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم گورے رنگ کی مذمت نہیں کرتے۔ ہمارے مذمت کا مقصد اور مطلب ہے کہ سانولے پن کو اپناؤ اور اسکو خوبصورت سمجھو۔
یہاں میرے دو نقطے ہیں۔ پہلا یہ ، کہ جیسا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ وہ سراسر تعصب اور گورے رنگ کی مزمت ہے۔ کہیں سے بھی وہ ڈیسینسی نظر نہیں آتی ان مجاھدوں کے رویے میں جس سے میں یہ سمجھوں کہ واقعی جو انکا پوئنٹ وہ بتا رہے ہیں عملاً بھی ایسا ہے۔
دوسرا۔ میں کہتی ہوں کہ کوئی گورا ہے یا کالا۔ اس چیز کو اشو بنایا ہی کیوں جائے ؟ کوئی گورا ہے تو گورا ہے۔ کوئی کالا ہے تو کالا ہے۔  اور خدا کے لئے ، یہ کیسی جہالت ہے ، کیسی ذہنی پسماندگی ہے کہ آپ انسان ہو کر ایک انسان کے رنگ کو ایک عالمگیر اشو بنا رہے ہو۔ ایک انسان کا رنگ کہاں سے اتنی بڑی فکر کئ چیز ہو سکتی ہے، اشو بنانا ہے تو دنیا میں جو جنگیں ہو رہی ہیں ، لوگ مر رہے ہیں۔ بچے رُل رہے ہیں ، کہیں قحط ، کہیں طوفان ، کہیں سیلاب ، دہشت گردی ، کرپشن ، بےروزگاری، غربت۔ یہ ہے انسان کی اصل فکر اور دنیا کا المیہ۔ گورا خوبصورت ، گورا بدصورت ، کالا خوبصورت ، کالا بدصورت۔ یہ کہاں کے اشو ہیں ؟ کہاں کے مسائل ہیں ؟ کیسی ذہنی پسماندگی ہے یہ ؟ کیسی جہالت ہے ؟  میں یہاں انگلنڈ میں رہتی ہوں۔ یہاں گوروں کو دیکھتی ہوں۔ دھوپ میں لیٹ کر سکن ٹین کر رہے۔ ہالی ووڈ سلیبرٹی لے لو۔ کون ہے جس کا رنگ گورا ہے پھر بھی اس نے کبھی سکن ٹین نہیں کیا ؟ شاید کوئی ہو بھی۔ ، لیکن مستند حقائق کی طرف نہیں جاتے۔ ایک مجموعی بات کرتے ہیں کہ ہر ہالی ووڈ سلیبرٹی سکن ٹین کرتی ہے۔کبھی بھی انھوں نے نہیں کہا کہ سانولا رنگ زیادہ خوبصورت ہے ، وہ اپنے گورے رنگ سے خوش نہیں ، یا وہ سانولا بننا چاہتی ہیں۔ وہ سکن ٹین بھی کرتی ہں اور اپنے سفید رنگ پہ بھی اتنی ہی خوش اور مطمئن ہیں۔ کسی کو یہ بات ہضم ہو یا نہ ہو۔ لیکن میں کہوں گی کہ انکا رویہ بہت درست ہے۔ وہ انسان کے گورے اور کالے رنگ کو ایک سا لیتے ہیں۔ انھیں نہ گورا ہونے میں کوئی شرم ہے نہ کالا دکھنے سے کوئی ہچک۔  اسکا مطلب یہی ہے کہ چاہے کالا ہے یا گورا۔ ان کے نزدیک ہر رنگ انسان کا رنگ ہے اور وہ وقت، موقعے ، کردار یا اپنے موڈ کے حساب سے اپنا رنگ بدلتے ہیں۔ کیونکہ یہ بھی ایک میک اپ کی طرح ہے۔  جیسے انسان لپ اسٹک کا شیڈ بدلتا ہے۔ آج میں لال لگاؤں تو خوبصورت دکھوں گی۔ آج مین گلابی لگاؤں تو زیادہ اچھا لگے گا۔  آج میرا من اپنے قددتی ہونٹوں کا رنگ رکھنے کا اور حتی کہ نیلے ، کالے رنگ کی لپ اسٹک بھی لگا لی جاتی ہے۔ تو کیا مطلب ؟ اگر لال لگالی تو گلابی کو برا سمجھ لیا ؟ اگر کالی لگا لی تو لال کو بدصورت کہہ دیا ؟  جب لپ اسٹک کا ایک رنگ لگانے کا مطلب دوسرے کو برا کہنا نہیں تو پھر چمڑی کا رنگ بدلنا کہاں سے برا ہو گیا ؟  کیا انسان کو اتنا بھی حق نہیں کہ وہ جیسا دکھنا چاہتا ہے دکھے؟ ویسا میک اپ کرے ؟  اگر کوئی گورا ہو کر سکن ٹین کرے اور اس میں کوئی برائی نہیں تو ایک کالا یا سانولا ہو کر رنگ گورا کرنا چاہتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ اور کیوں نہ بنیں ایسی کریمیں؟ کیوں نہ چلیں اشتہار؟  جب سکن ٹین کی کریمین اور سپرے بنتے اور تشہیر ہوتی ہے تو رنگ گورا کرنے کے کیوں نہیں ؟  خدارا ، اس چیز کو اتنابڑا اشو نہ بنائیے۔ رنگ گورا کرنے کی کریمیں بھی سکن ٹین کی کریموں کی طرح ایک میک اپ ہیں۔ میں بھی کبھی سکن ٹین کرنے کا سوچتی ہوں۔ کیا برائی ہے؟ ایسے ہی ، اگر کوئی رنگ گورا کرنے کی کوشش کرے یا خؤاہش کرے تو کیا برائی ہے۔ اسکو ایک میک اپ کی طرح لو ،انسان کے مزاج کے ساتھ انسان کی ترجیحات بھی بدلتی ہیں۔ جیسے ہم ہر روز مختلف رنگ کے کپڑے پہننا چاہتے ہین۔ ہم ایک رنگ کا کپڑا اسلئے نہیں پہنتے کیونکہ ہمیں مختلف رنگ کے کپڑے میسر ہیں۔ جب مختلف رنگ کے کپڑے میسر ہیں تو پھر ایک ہی رنگ کیوں پہنیں؟ اسی طرح۔ جب آج کے دور میں ہمیں رنگ بدلنے کا میک اپ ، کریمیں میسر ہیں تو پھر ایک رنگ پہ یہ اصرار کیسا اور بحث کیسی ؟ یہ صرف ذہنی پسماندگی ہے اور کچھ نہیں۔ ورنہ۔ اگر انسان کے رنگ کی عزت ہی کرنی ہے تو ہر رنگ کی کرو۔ کسی ایک رنگ کو لے کر یہ تعصب کیسا ؟ تعصب تو ہر حال میں برا ہے ،  چاہے کالے سے ہو چاہے گورے سے۔ 

No comments:

Post a Comment